کلام کی دو قسمیں
عن عبدالله بن عمر، قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : لَا تُكْثِرُوا الكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللَّهِ القَلْبُ القَاسِي (رواه الترمذی: 2411)-
حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام نہ کرو۔ کیوں کہ اللہ کے ذکر کے بغیر زیادہ کلام کرنا دل کی قساوت کی وجہ سے ہوتا ہے اور جس دل میں قساوت ہو وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے دور ہوتا ہے۔
اس حدیث میں" ذکر" سے مراد معروف معنوں میں کلماتِ ذکر نہیں ہیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بات کرتے ہوئے بار بار ذکر کے کلمات کو اپنی زبان سے دہراتے رہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری بات کو یادِ خداوندی کی کیفیت سے خالی نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کو یادِ خداوندی کی روح سے بھرا ہوا ہونا چاہیے۔
قساوت کے معنی سختی کے ہیں۔ ارض قاسیہ اس زمین کو کہتے ہیں جو بنجر ہو اور جس میں کچھ نہ آگے۔ جب یہ لفظ دل کے لیے بولا جائے تو اس کا مطلب ہو گا سخت دل ، ایسا دل جو بے حس ہو گیا ہو۔ جن لوگوں کے دلوں میں سختی آجائے ، جن کے اندر حساسیت باقی نہ رہے ، ان کا کلام ایک قسم کی لسانی ورزش ہوتا ہے۔ ایسے کلام میں تواضع اور خشیت کی روح باقی نہیں رہتی۔ وہ بے حس مشین کی طرح بولتے ہیں نہ کہ اس انسان کی طرح جو خدا کی عظمت و جلال میں غرق ہو کر بول رہا ہو۔
اس کے برعکس جو آدمی اللہ سے ڈرتا ہو ، جس کو آخرت کی جواب دہی کے احساس نے گھلا رکھا ہو، وہ جب بولے گا تو اس کے لفظ لفظ میں اس کی قلبی کیفیت کا رنگ جھلک رہا ہوگا۔ اس کا کلام ایک سنجیدہ انسان کا کلام ہوگا۔ اس کے لہجے میں درد مندی ہوگی۔ اس کی باتوں میں گہرائی ہوگی۔ اس کی ہربات میں خدا اور آخرت کی فکر شامل ہوگی۔
بے حس آدمی کے الفاظ انسانی ڈکشنری سے ماخوذ ہوتے ہیں ، حساس آدمی کے الفاظ خدائی معرفت سے۔ اس کے نتیجے میں دونوں کلام میں وہی فرق پیدا ہو جاتا ہے جو فرق زمین و آسمان کے درمیان ہے۔