خوش خبری
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب امرحق کا اعلان کیا تو آپ کو وہاں کےلوگوں کی طرف سے سخت اذیت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
آپ کی اہلیہ خدیجہ بنت خویلد فوراً ہی آپ پر ایمان لے آئیں۔ اب تک وہ آپ کی زندگی میں شر یک تھیں ، اب وہ آپ کی مصیبتوں میں شریک ہو گئیں۔ مخالفین آپ کے گرد جمع ہو کر شور مچاتے طرح طرح سے آپ کو ستانے کی تدبیریں کرتے۔
یہی حالات تھے کہ ایک روز خدا کے فرشتہ جبریل آپ کے گھر آئے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ خدیجہ کو ان کے رب کی طرف سے سلام پہنچا دیجیے۔ اس کے بعد جبریل نے کہا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خدیجہ کو ایک ایسے گھر کی خوش خبری دے دوں جو موتیوں کا ہے ، وہاں نہ شور ہے اور نہ تکلیف (أمرتُ أنْ أُبَشِّرَ خَدِيحِةَ بِبَيْتٍ مِن قَصَبِ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ) سيرة ابن ہشام ۲۵۹/۱
یہ حضرت خدیجہ کے لیے بشارت ہے اور عام اہل ایمان کے لیے نصیحت۔ خدیجہ کے لیے وہ کامیابی کی پیشگی خبرتھی اور دوسروں کے لیے وہ کامیابی کی طرف رہ نمائی۔
مومن کو موجودہ دنیا میں سرکش انسانوں کی طرف سے اذیتیں پیش آتی ہیں۔ ان کا شور اور ان کے اشتعال انگیز الفاظ سننے پڑتے ہیں۔ ایسے موقع پر مومن کو یہ نہیں کرنا ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے لڑنے لگے۔ اس کے بر عکس مومن کو چاہیے کہ وہ ان کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی توجہ آخرت کی طرف موڑ دے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے کہے کہ خدایا ، مجھے ان ناخوش گواریوں پر صبر کی توفیق دے اور میرے لیے جنت میں ایسا گھر بنا دے جہاں نہ کوئی تکلیف ہو اور نہ کسی قسم کا شور وغل۔
دنیا میں ایک آدمی خدا پرستی کا پیغام لے کر کھڑا ہو، اور انسان پرست لوگ اس سے بگڑ کر اس کے خلاف شور و غل کریں۔ وہ اللہ کے لیے عمل کرنے کی طرف پکارے۔مگر لوگ اس کو ستانے اور پریشان کرنے کے درپے ہو جائیں۔ ان سب کے باوجود وہ صبر کرے تو ایسے شخص کے لیے اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ اس کو اگلی دنیا میں قیام کرنے کے لیے ایسا نفیس ماحول دے گا جہاں وہ ابدی طورپر شور اور تکلیف دونوں سے محفوظ رہ کر پر راحت زندگی گزار سکے۔