حق کی پہچان
قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کا قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ قر آن اگر خدا کا کلام ہے تو وہ عرب کی دونوں بستیوں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں اتارا گیا۔ کیا لوگ تیرے رب کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں۔ ہم نے دنیا کی زندگی میں ان کی روزی کو تقسیم کیا ہے۔ اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔ اور تیرے رب کی رحمت اس سےبہتر ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں (الزخرف: ۳۲ -۳۱)
قدیم عرب میں مکہ اور طائف کو مرکزی شہر کا مقام حاصل تھا۔ ان شہروں میں کچھ لوگ اکابر کا درجہ حاصل کیے ہوئے تھے۔ مثلاً مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ ، اسی طرح طائف میں عروہ بن مسعود اور ابن عبدیالیل وغیرہ۔ لوگوں کی نگاہیں انھیں بڑوں پر اٹکی ہوئی تھیں۔ اس لیے جب محمد بن عبداللہ نے پیغمبر ہونے کا دعوی کیا تو لوگوں کی سمجھ میں نہ آیاکہ وہ خدا کے پیغمبر کیسے ہو سکتے ہیں جب کہ وہ عرب کے اکابر میں سے نہیں۔
یہی آدمی کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ لوگ حق کو شخصیتوں کے واسطے سے پہچانتے ہیں۔ کوئی شخص جو کسی وجہ سے لوگوں کے درمیان شہرت اور بڑائی کا درجہ حاصل کر لے ، اس کے کہے ہوئے کو وہ حق سمجھ لیتے ہیں۔ اس قسم کے اعتراف کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصلی اور مطلوب اعتراف یہ ہے کہ آدمی حق کو اس کےجوہر کی بنیاد پر پہچانے۔ وہ سچائی کو اس کے غیبی روپ میں دیکھ لے۔
یہ انسان کے امتحان کا سب سے اہم پرچہ ہے۔ اس لیے وہ قیامت تک کسی ایک یا دوسری صورت میں جاری رہے گا۔ جو آدمی اس امتحان میں پورا اتراوہی کامیاب ہے، اور جو شخص اس امتحان میں پورا نہ اترے وہ نا کامیاب۔
حق کو ظاہری عظمت کی سطح پر پا نا حق کو پانا نہیں ، وہ صرف ظاہری عظمت کو پانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسے اعتراف ِحق کی کوئی قیمت نہیں۔ حق کو پانے والا وہ ہے جس نے حق کو وہاں پایا جہاں ا بھی اس کے ساتھ ظاہری عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں۔
یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں خدا ہمیشہ مخفی روپ میں آتا ہے۔ خدا کو پانے والا صرف وہ ہے جو خدا کو اس کے مخفی روپ میں پالے۔