حسرت کا دن
قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے کہ قیامت کا دن بہت سے لوگوں کے لیے حسرت کا دن ہوگا۔ مثلاً ارشاد ہوا ہے، یقینا وہ لوگ گھاٹے میں رہے جنھوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلایا۔ یہاں تک کہ جب وہ گھڑی ان پر اچانک آئے گی تو وہ سخت حسرت اور افسوس میں پڑ جائیں گے اور کہیں گئے کہ اس باب میں ہم نے کیسی کو تا ہی کی۔ اس وقت وہ اپنے بوجھ اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ دیکھو، کیسا برا بوجھ ہے جس کو وہ اٹھائیں گے۔ اور دنیا کی زندگی تو بس کھیل اور تماشا ہے اور آخرت کا گھر بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ رکھتے ہیں، کیا تم نہیں سمجھتے (الانعام: ۳۲-۳۱)
حسرت در اصل کھوئی ہوئی چیز پر غم اور ندامت کا نام ہے (الحسرة الغمّ علی ما فاتہ والنَّدَمُ عَلَيْهِ، المفردات فی غریب القرآن) قیامت میں جب پردہ ہٹے گا اور تمام حقیقتیں بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں گی اس وقت آدمی پر کھلے گا کہ دنیا میں کتنا بڑا موقع اس کو ملا تھا مگر وہ اس کو استعمال (avail) نہ کرسکا۔ اس نے ملے ہوئے موقع کو کھو دیا۔
اس وقت آدمی جانے گا کہ میرے لیے موقع تھا کہ میں دنیا میں عمل کر کے آخرت میں اس کا قیمتی انعام حاصل کروں مگر اس واحد موقع کو میں اپنے لیے کارآمدنہ بنا سکا۔ اب دوبارہ عمل کا موقع نہیں۔ اب ابد تک میرے لیے صرف یہ مقدر ہے کہ میں اپنی کوتاہی کا انجام بھگتتار ہوں۔
میرے لیے موقع تھا کہ میں حق کے اعتراف کا کریڈٹ لوں مگر میں نے صرف حق کے انکار کا ثبوت دیا۔ میرے لیے موقع تھا کہ میں خدا کے آگے جھک جاؤں مگر میں خدا کے آگے سرکشی کرتا رہا۔ میرے لیے موقع تھا کہ میں انصاف والا معاملہ کروں مگر میں برابر بے انصافی کرتا رہا۔ میرے لیے موقع تھا کہ میں سچے انسانوں کا ساتھ دوں مگر میرا گھمنڈ میرے لیے ان کا ساتھ دینے میں رکاوٹ بنا رہا۔میرے لیے موقع تھا کہ میں حق دار کو اس کا حق ادا کروںمگر میں حق دار کو اس کا حق ادا کرنے میں ناکام رہا۔ میرے لیے موقع تھا کہ میں بے لاگ سچائی کا اعلان کروں مگر میں ہمیشہ مصلحت والی باتیں لکھتا اور بولتا رہا۔ میں نے کھو دیا حالانکہ میرے لیے پانے کا امکان پوری طرح کھلا ہوا تھا۔ یہ حسرت بلا شبہ سب سے بڑا عذاب ہے، اور یہ عذاب ہر اس انسان کے لیے مقدر ہے جس پر موت اس حال میں آئے کہ وہ اپنے دنیا کے مواقع کو اپنی آخرت کے لیے استعمال نہ کرسکا۔