اسلامی حل

ہندوؤں کے پڑھے لکھے طبقے میں آج کل کثرت سے یہ سوچا جا رہا ہے کہ کیا ہندو ازم میں" ریفارم "کی ضرورت ہے۔ اس کا اظہار اکثر اخبارات ورسائل میں ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹائمس آف انڈیا (۲۴اپریل ۱۹۹۱) میں مسٹر روندر کمار کا ایک مفصل مضمون چھپا ہے جس میں انھوں نے اس جدید رحجان کا جائزہ لیا ہے جس کو انھوں نے ہندو ازم کو سامی بنانا (Semitisation of Hinduism) قرار دیا ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے:

Contemporary Hinduism: Existential or Instrumental Religion

 اسی طرح ٹائمس آف انڈیا (۱۳ مئی ۱۹۹۱) میں مسٹر سو اپن داس گپتا کا مضمون چھپا ہے۔ اس کے عنوان کے الفاظ یہ ہیں کہ ہندو ازم کو سامی مذاہب کے مطابق بنا دینا چاہیے :

Hinduism Should be Semitised

  مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ہندوؤں میں مختلف تجدیدی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ پہلے ماڈرنائزیشن کی تحریک تھی ، پھر سیکولرائزیشن کی تحریک چلی ، اور اب سیمیٹائزیشن کی تحریک چل رہی ہے :

First it was modernisation, then it was secularisation, and now it is semitisation.

مضمون نگار نے اگر چہ اس قسم کی تحریکوں کو" اینٹی ہندو تحریک" قرار دیا ہے۔ تاہم انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہندو ازم میں بہت سے ایسے مسائل ہیں جو سامی مذاہب میں نہیں ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال ، ان کے نزدیک ، ذات پات کا نظام (casteism) ہے جس کا ہندو ازم کے ڈھانچہ میں کوئی حل نہیں۔ البتہ ہندوؤں کے ذات پات کے غیر مساوی نظام کو سامی مذاہب (مثلاً اسلام) کے مساوات پر مبنی سماجی نظام کی مدد سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

 سوامی دیویکانند نے پچھلی صدی کے آخر میں اپنے ایک مطبوعہ خط مورخہ ۱۰ جون ۱۸۹۸ میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ہندو ازم میں ادویت واد کا نظریہ تمام چیزوں میں کامل یکتائی کو مانتا ہے مگر عملی ادویت واد (Practical Advaitism) کبھی ہندوؤں میں پیدا نہ ہو سکی۔ اگر کسی مذہب نے تاریخ میں کبھی عملی ادویت واد اور مساوات (equality) کو بالفعل انسانی سماج میں قائم کیا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے۔ سوامی ویویکا نند کی یہ تاریخی تحریر ہر دردمند ہندستانی کے لیے بے حد قابل ِغور ہے۔

سوامی ویویکانند نے مذکورہ خط میں اپنا یہ قطعی خیال ظاہر کیا ہے کہ پریکٹیکل اسلام کی مدد کے بغیر ویدانت کے نظریات بالکل بے قیمت ہیں۔ وسیع انسانیت کے لیے ان نظریات کا کوئی فائدہ نہیں۔ سوامی دیویکا نند نے مزید لکھا ہے کہ ہمارے مادر وطن کے لیے واحد امید یہ ہے کہ یہاں دونوں مذہبوں ہندو ازم اور اسلام کا میل ہو سکے۔ مستقبل کا معیاری ہندستان اس طرح وجود میں آسکتا ہے کہ یہاں ویدانت برین کے ساتھ اسلام باڈی کو شامل کیا جائے اور دونوں کی مدد سے سماج کی تشکیل کی جائے :

Letters of Swami Vivekananda, Calcutta. pp. 379-80

  میں کہوں گا کہ خرابیاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک عملی ، اور دوسری نظریاتی۔ اگر کوئی جزئی نوعیت کی عملی خرابی ہو تو ایسی حالت میں جوڑ اور پیوند کا طریقہ کار آمد ہو سکتا ہے۔ مگر جہاں مسئلہ فکری اور نظریاتی ہو ، وہاں اس قسم کا جوڑ کار آمد نہیں۔ جو عملی خرابی کسی فکری خامی کا نتیجہ ہو ، اس کو فکری خامی کی اصلاح کے بغیر درست نہیں کیا جا سکتا۔

ہندو ازم میں ذات پات کا نظام صرف ایک عملی خرابی کی بات نہیں ، وہ عین ہند و فکر اورہندو فلسفہ کے نتیجے  میں پیدا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں خود اس کے فلسفہ پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔سادہ طور پر صرف عملی اصلاح کی کوشش اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔

 ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اپر کاسٹ کے ہندوؤں نے ایک پولیس کو توال امباد اس ساولے (۳۰ سال) کو پتھروں اور لاٹھیوں سے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ واقعہ پر بھنی کے ایک گاؤں میں ۱۶ اگست۱۹۹۱ کو ہوا۔ امباد اس ساولے کا قصور یہ تھا کہ وہ لور کاسٹ سے تعلق رکھتا تھا اور بارش سے بچنےکے لیے مقامی ہنومان مندر کی سیڑھیوں پر چڑھ گیا تھا  (ٹائمس آف انڈیا ۲۹ اگست ۱۹۹۱)

جو لوگ نچلے طبقے کے خلاف اس قسم کا وحشیانہ سلوک کرتے ہیں وہ اپنے اس یقین کے تحت کرتے ہیں جو اپنے مذہبی عقیدہ کی رو سے انھیں حاصل ہے۔ اس لیے جب تک مذہبی عقیدہ کی اصلاح نہ ہو اس برائی کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اور یہ مقصد صرف عقیدۂ توحید کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom