تنقید، نزاع
قرآن میں داعی کو اس سے منع کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مدعو(مخاطب) سے نزاع کرے۔ داعی پر لازم ہے کہ وہ مدعو کی زیادتیوں اور اس کی اشتعال انگیز باتوں پر یک طرفہ طور پر صبر کرے۔ وہ ہرگز رد عمل کا انداز اختیار نہ کرے۔یہ ہدایت اس لیے دی گئی ہے تاکہ داعی اورمدعو کے درمیان وہ معتدل فضا بر ہم نہ ہونے پائے جو دعوت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
وہ کون سی نزاع ہے جس سے داعی کو پر ہیز کرنا ہے۔ قرآن کے مطابق وہ دو قسم کی ہے۔ ایک یہ کہ مادی چیزوں کے معاملے میں مدعو سے جھگڑا کیا جائے۔ مثلاً مد عو سے معاشی حقوق کی جنگ چھیڑنا۔ مدعو سے مطالبہ کرنا کہ تم ہمارے خلاف نعرہ نہ لگاؤ، اور اگر وہ مخالفانہ نعرہ لگائے تو اس سے لڑ پڑنا۔ مدعو کو نقصان پہنچا کر اس کو مغلوب کرنے کی کوشش کرنا ، وغیرہ۔ داعی کو چاہیے کہ اس طرح کے معاملات میں وہ خود صبر کر لے ، وہ مدعو کے خلاف احتجاجی مہم یا حقوق طلبی کی سیاست نہ چلائے۔
اس سلسلے میں دوسری چیز یہ ہے کہ مدعو کو خطاب کرنے میں سب و شتم یا مناظرہ و مجادلہ کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ بلکہ واقعات و حقائق کی زبان میں کلام کیا جائے ، داعی کا جدال ہمیشہ جدال احسن ہوتا ہے۔داعی اپنی بات کو دلائل پر مبنی کرتے ہوئے بیان کرتا ہے۔
داعی کو جس نزاع سے منع کیا گیا ہے ، اس کا کوئی تعلق تنقید سے نہیں ہے۔کلمۂ اسلام (لا الہ الا الله) میں شرک کی تردید پہلے ہے اور توحید کا اثبات اس کے بعد۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تنقید ، دعوت کا لازمی جز ءہے۔ یہ ممکن ہے کہ تنقید بھی مدعو کو بری معلوم ہو۔ وہ تنقید کو سن کر جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہو جائے۔ لیکن اس کے باوجود دعوت میں تنقید کا اسلوب اختیار کیا جائے گا۔ کیوں کہ دعوت کا اصل مقصد احقاقِ حق اور ابطال ِباطل ہے، ایسی حالت میں اگرتنقید کا انداز نہ اختیار کیا جائےتو اس کے بعد دعوت کی وضاحت ہی ناممکن ہو جائے گی۔
سچی تنقید اپنی حقیقت کے اعتبار سے تبئین ہے۔ وہ اپنے نقطۂ نظر کی استدلالی وضاحت ہے۔ ایسی تبیین اور وضاحت لازمی طور پر ضروری ہے۔ اس کے بغیر مخاطب کے اوپر حق کی پیغام رسانی کا اتمام نہیں ہو سکتا۔