سفر امریکہ ۶
یہاں سنگا پور کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ بزنس منیجر تھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ جاپان کس لیے آئے۔ انھوں نے کہا کہ صرف سیکھنے کے لیے۔ میں نے دوبارہ پوچھا کہ جاپان کی کس بات نے آپ کو اتنا متا ثر کیا کہ آپ صرف سیکھنے کے لیے یہاں آگئے۔ انھوں نے کہا کہ میں جاپان کی صنعتی ترقی کے بارےمیں بہت کچھ سنتا اور پڑھتا تھا۔ مگر ایک واقعہ میں نے پڑھا۔ اس نے مجھے تڑپا دیا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھ کو جاپان جا کر وہاں سے کچھ حاصل کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ واقعہ کیا تھا۔ انھوں نے اپنا بریف کیس کھولا اور ایک انگریزی میگزین نکالا۔ اس میں حسب ذیل واقعہ چھپا ہوا تھا :
The story is told of a Swedish expert who went to Japan to study workers' participation in management. In one factory, in the middle of an interview, he was gravely embarrassed when the Japanese worker burst into tears. Finding no response from the worker, the Swede sought an answer from his supervisor. "Tell me everything that you said to the worker," confidently after listening to his story, "the worker was upset when you told him that his company has not been procuring export orders like before." The worker, the Swede was told was deeply concerned that the nation would suffer if the exports went down, a fact which could be attributed, in his own estimation, to a lowering of quality.
سویڈن کے ایک ماہر کا قصہ بتایا جاتا ہے۔ وہ جاپان گیا تاکہ انتظام میں کارکنوں کی شرکت کا مطالعہ کرے۔ ایک کارخانہ میں وہ ایک کارکن سے بات کر رہا تھا۔ وہ اس وقت بہت متاثر ہوا جب اس نے دیکھا کہ اس کے ایک سوال پر جاپانی کا رکن بے اختیار رو پڑا۔ جب اس کو کارکن کی طرف سے اپنے سوال کا جواب نہیں ملا تو اس نے سپروائزر سے اس کی با بت پوچھا۔ سپروائزر نے کہا کہ جو کچھ آپ نے اس سے کہا ہے وہ سب مجھے بتائیے۔ پور اقصہ سننے کے بعد سپر وائزر نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے کارکن کو بتایا کہ تمہاری کمپنی آج کل بر آمد ی فرمائشوں کی تعمیل پہلے کی طرح نہیں کر رہی ہے تو وہ سخت پریشان ہو گیا، اس نے کہا کہ جاپانی کارکن کو اس کا بہت زیادہ خیال رہتا ہے کہ اگر بر آمد گھٹ گئی تو اس سےپوری قوم کا نقصان ہوگا۔ اس کے خیال کے مطابق اس کو جاپانی کارکردگی کا معیار گھٹنے سے تعبیر کیا جائے گا۔
اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد میں نے سوچا کہ جاپان کا ایک انسان اپنی قوم کے بارے میں اتنا حساس ہے کہ وہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کی کسی کوتاہی سے اس کی قوم پر حرف آئے۔ مگر موجودہ مسلمان اپنے دین کے بارے میں اس طرح حساس نہیں۔ وہ مسلسل غلطیاں اور نادانیاں کر رہے ہیں۔ مگر یہ احساس ان کو نہیں تڑپاتا کہ اس کی وجہ سے ان کا دین دوسری قوموں کی نظر میں بد نام ہو جائے گا۔
مجھے اپنے بچپن کے زمانے کی بات یاد ہے۔ یہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے کا زمانہ تھا۔ اس وقت "میڈ ان جاپان " کے معنی ہوتے تھے معمولی اور کمزور چیز۔ اس زمانے میں عام طور پر کھلونے وغیرہ جاپان سے آتے تھے اور سستی قیمت پر بازار میں بکتے تھے۔ یہاں میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ جاپان اپنے قدیم دور سے جدید دور تک کیسے پہنچا جب کہ ماضی کے برعکس "میڈ ان جاپان "کا لفظ معیاری مصنوعات کا عنوان بن گیا ہے۔
بعض جاپانیوں سے بات کرنےکے بعد ایک بالکل نئی چیز میرے علم میں آئی۔ وہ تعلیم کے سال (education years) کا لفظ تھا۔ معلوم ہوا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان میں تعمیر شعور کی ایک مستقل تحریک چل پڑی اور اس نے قومی تحریک (national movement) کی صورت اختیار کرلی۔ اس تحریک کا مقصد تصور (outlook) کو بدلنا تھا۔
تعلیم کے سال (ایجو کیشن ایرس) کا مرحلہ fifties & sixties (خمسينات اور ستینات)کے دوران تقریباً ۱۵ سال تک جاری رہا۔
قوم کے اندر تعمیری شعور پیدا کرنے کے بعد دوباره تقریباً ۵ اسال تک حصول معیار (pursuit of quality) کا دور گزرا ہے۔ یہ دوسرا دور ستینات اور سبعینات (sixties & seventies) کے زمانے میں جاری رہا۔ اس طرح تیس سالہ فکری جدوجہد کانتیجہ وہ عملی ترقی ہے جو آج جاپان کو حاصل ہوئی ہے۔
جاپان نے تعمیرِ شعور کے محاذ پر ۳۰ سال صرف کیے ۔ اس کے برعکس موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے افرادِ قوم کی شعوری تعمیر پر ۳۰ دن بھی صرف نہیں کیے ۔ حتی کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ تعمیر شعور بھی کوئی کرنے کا کام ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ وہ اوران کی پوری قوم پوری زمین تو کیا پوری کائنات کی صدرنشین بن جائے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ، دوسری عالمی جنگ تک جاپانی مصنوعات کو غیر معیاری (substandard) سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج معاملہ الٹا ہے۔ آج میڈ ان جاپان کا مطلب ہوتاہے سب سے اچھا اور سب سے زیادہ قابل اعتماد سامان۔ چنانچہ آج تمام لوگوں کی زبان پر یہ سوال ہے کہ جاپانی کیسے ایسا کرتے ہیں اور اتنا عمدہ کرتے ہیں :
How they do it and do it so well.
دنیا کے مختلف ملکوں سے خاص اس مقصد کے لیے لوگ جاپان آتے ہیں تاکہ اس راز کا پتہ لگائیں۔ اس قسم کے ایک صاحب ، جو یورپ کے ایک ملک سے آئے تھے ، ان سے ٹوکیو ائیر پورٹ پر میری ملاقات ہوئی۔ گفتگو شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ جس سوال کا جواب معلوم کرنے کےلیے آپ جاپان آئے ، میں خود بھی اسی سوال سے دوچار ہوں۔ اس لیے آپ مجھے اپنی دریافت سے آگاہ کریں۔
انھوں نے کہا کہ اس کا راز میرے خیال میں یہ ہے کہ جاپانی لوگ بہت زیادہ معیار پسند (highly quality conscious) ہوتے ہیں۔ ہر جاپانی کے اندر زبر دست طور پر یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ جو کام بھی کرے بہتر طور پر کرے۔ یہ خواہش اتنی گہری ہے کہ اس کی خاطروہ ہر دوسری چیز حتی کہ خاندانی زندگی کو چھوڑ دیتا ہے:
Every Japanese possesses very strong desire to do well, whatever bit he does. This desire is so intense that he forfeits even family life in pursuit of perfecting it.
جاپان کے افراد کا یہ مزاج جاپان کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ ہندستان جیسے ملکوں میں بدقسمتی سے یہ مزاج نہیں۔ یہی ہماری سب سے بڑی کمی ہے جس نے ہمیں عالمی سطح پرپیچھے کر رکھا ہے۔
یہاں مجھے ایک جاپانی آفس میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک تصویرخصوصی اہتمام کے ساتھ دیوار پر لگی ہوئی ہے۔ اس پر لکھا ہوا تھا : ایڈورڈس ڈیمنگ (Edwards Deming) میں نے کہا کہ یہ تو ایک امریکی ہے، آپ کی حریف قوم کا ایک فرد۔ پھر آپ نے اس کی تصویر اپنے یہاں کیوں لگا رکھی ہے۔ دفتر کے ذمہ دار نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وہ تو ہمارے سب سے بڑے گرو ہیں :
He is our super-guru.
ایڈورڈس ڈیمنگ ایک ماہر شماریات (statistician) کا نام ہے۔ اس نے صنعت کی ترقی کے لیے کو الیٹی کنٹرول کا نظریہ پیش کیا اور اس کے اصول وضع کیے ۔ جاپانیوں نے فوراً اس کو لے لیا اور اس کو اپنی ترقی کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔ اس معاملے میں انھوں نے اپنی قوم کو اتنا باشعور بنایا کہ پوری قوم کے لیے کو الیٹی کی حیثیت ایک طریق زندگی (way of life) کی ہوگئی۔ حتی کہ انھوں نے اپنی صنعتی پیدا وار کو زیرو ڈیفیکٹ(zero defect) کے مرحلہ میں پہنچا دیا۔
جاپانیوں کو امریکہ سے سخت چوٹ پہنچی تھی ، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا کہ امریکیوں کو دشمن بتا کر ان کے خلاف الفاظ کا طوفان جاری کر دیں۔ اس کے بجائے انھوں نے امریکیوں سے سیکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے دشمن کے اندر سے بھی اپنے موافق باتیں نکال لیں۔ یہی اس دنیامیں زندگی کا راز ہے ، اور ایسے ہی لوگ اس دنیا میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
جاپان میں قیام کے لیے میرے پاس دو ہفتہ کا ویزا تھا۔مگر بعض اسباب کی بنا پر میں دو دن ہی یہاں ٹھہر سکا۔ ٹوکیو میں ایک اسلامک سنٹر ہے۔ یہ ۱۹۶۵ میں قائم ہوا۔ ۱۹۸۲ میں اس کی مستقل عمارت بنائی گئی۔ اس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عبد الرحمن صدیقی کا ٹیلیفون امریکہ میں آیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامک سنٹر میں میرا پروگرام رکھیں۔ اس سے پہلے دہلی میں ڈاکٹر اسکندر احمد چودھری (مقیم ٹو کیو)کا خط ملا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ آپ کی آمد کے موقع پر ہم چاہتے ہیں کہ جاپانی مسلمانوں کا ایک اجتماع ٹوکیو کے اسلامک سنٹر میں رکھیں۔
میرے مختصرقیام کی وجہ سے اس قسم کا کوئی پروگرام تو نہیں بنا ، البتہ اپنے مختصر قیام کو میں نے زیادہ سے زیادہ اس مقصد کے لیے استعمال کیا کہ میں جاپان کو سمجھوں۔ ایک باربس میں میری ملاقات ایک جاپانی سے ہوئی۔ وہ انگریزی جانتا تھا ، بات چیت کے دوران اس نے اپنے بیگ سے ایک کارڈ نکالا۔ اس پر لکھا ہو ا تھا جاپان اٹھ ، دنیا کو تیری ضرورت ہے :
Stand up, Japan, the world needs you.
اس سے گفتگو کرکے اندازہ ہوا کہ جاپانیوں میں ایک نیا گر وہ ابھر رہا ہے۔ وہ موجودہ صورت حال پر مطمئن نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف عمدہ سامان تیار کر کے دنیا میں بیچنا یا قوموں کو مالی مدد دینا کافی نہیں۔ دنیا میں امن کا دور لانے کے لیے ہمیں کچھ اور کرنا چاہیے۔ تاہم جاپانیوں کی اکثریت زیادہ تر اقتصادی انداز میں سوچتی ہے :
the Japanese have grown used to thinking of decisions only in terms of economics.
اس نے کہا کہ جاپانیوں میں نیا ذہن بنانے کے لیے نصف صدی کی مدت درکار ہوگی تاکہ ان میں یہ سوچ ختم ہو کہ محض دعا کرنے سے امن آسکتا ہے :
It could take half a century to re-educate the Japanese so that they stop thinking that merely praying for peace will bring peace.
جاپان کو اپنے مزید حوصلوں کی تکمیل کے لیے ایک "آئیڈیا لوجی " کی ضرورت ہے۔ مگر جاپان کے پاس کوئی مکمل آئیڈیا لوجی نہیں۔ یہی جدید جاپان کی سب سے بڑی کمی ہے اوریہی اس کی سب سے بڑی ضرورت بھی۔
جلد ہی ۲۲ نومبر ۱۹۹۰ کو جاپان کے بادشاہ اکی ہیتو (Akihito) کی تخت نشینی کی رسم ٹوکیو میں ادا کی گئی ہے۔ وہ ۱۹۳۳ میں پیدا ہوئے اور وہ جاپان کے ۱۲۵ ویں شہنشاہ ہیں۔ ہیرو ہیتو کے انتقال (۷ جنوری ۱۹۸۹) کے بعد انھیں یہ عہدہ ملا تھا۔ تاہم محل کے آداب کے مطابق ان کی باقاعدہ تخت نشینی پچھلے ہفتہ کو انجام پائی ہے۔ میں نے ایک جاپانی سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں کے عقیدے کے مطابق، جاپانی شہنشاہ آسمان کا خدائی بیٹا ہے :
Is the Japanese Emperor the divine Son of Heaven?
اس نے کہا کہ پہلے جاپانی ایسا سمجھتے تھے۔ مگر اب وہ ایسا خیال نہیں کرتے۔ اس نے بتایا کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپانیوں کا عام خیال یہ تھا کہ شہنشاہ زندہ خدا (living god) ہے. اور وہ ان کا محافظ ہے۔ مگر دوسری عالمی جنگ میں جب جاپان کو شکست ہوئی تو ان کا یہ عقیدہ متزلزل ہو گیا۔ مزید یہ کہ خود شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے یہ اعلان کر دیا کہ میں خدا یا خدا کا بیٹا نہیں ہوں۔ جاپانی اگر چہ اب بھی اپنے بادشاہ کو کامی (Kami) کہتے ہیں جس کے معنی خد اکے ہوتے ہیں۔ مگر اب یہ لفظ صرف علامتی معنی میں بولا جاتا ہے نہ کہ حقیقی معنی میں۔
میں نے کہا کہ پہلے آپ لوگ اپنا حقیقی خدا ر کھتے تھے ، اب آپ لوگوں کے پاس صرف علامتی خدا ہے۔ اس کے جواب میں وہ مسکرا کر رہ گیا ، اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
۶ اگست ۱۹۸۹ کو دہلی میں میری ملاقات ایک جاپانی صحافی کو نیو نیشی (Kunio Nishi) سے ہوئی تھی۔ وہ ٹوکیو کے روزنامہ سیکائی نپو (Sekai Nippo) کے رپورٹر کے طور پر دہلی آئے تھے اور مجھ سے ملے تھے۔ گفتگو کے دوران میں نے ان سے جاپانی شہنشاہ اور خدا کے عقیدہ کی بابت سوال کیا۔ انھوں نے جو کچھ کہا ، اس کا خلاصہ خود ان کے الفاظ میں یہ تھا :
The Emperor was "God" and respected by Japanese people before world war II. He was the supreme head in the old Japanese constitution. In the name of the Emperor the war against America and Britain was fought. But after the defeat in the war, Japanese people have been changed into behaving that the Emperor is simply a man. The New Constitution puts him as the symbolic head of Japan. Now the Emperor has no political power.
الرسالہ مارچ ۱۹۷۷ میں جاپان کی تاریخ کا ایک صفحہ نقل کیا گیا تھا۔ یہ بے حد عبرت ناک ہے۔ ۱۸۹۱ء کا واقعہ ہے۔ اس وقت جاپان میں شہنشاہ میجی (Meiji) کی حکومت تھی۔ برطانی استعمار کے زیر اثر جاپان میں مسیحیت پھیلنے لگی۔ مقامی مذہب میں اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ تھی۔
میجی نے مسیحیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چاہا کہ وہاں مسلمانوں کو بلائے۔ اس نے ترکی کے سلطان عبد الحمیدثانی کو خط لکھا کہ آپ کچھ مسلم علماء کو جاپان بھیجیں تاکہ وہ مسیحی مبلغین سے مناظرہ کر یں اور یہاں کے لوگوں کے سامنے اپنا مذہب پیش کریں۔
سلطان عبد الحمید ثانی نے ترکی کے علماء (بشمول سید جمال الدین افغانی) کو دربار میں بلایا اور مشورہ کیا۔ مگر کسی بھی عالم نے اس پیش کش کو اہمیت نہ دی،وہ غیر ضروری بحثیں کرتے رہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی ایک عالم یا مبلغ بھی جاپان بھیجا نہ جاسکا۔
اس واقعہ پر اب ایک سو سال گزر چکے ہیں۔ اگر اس وقت کے علما ءنے جاپان کے بادشاہ کی اس پیش کش کو فور اًقبول کر لیا ہوتا اور جاپان کے لیے اسلامی مبلغ بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا تو ایک سو سال پورا ہونے کے بعد اب جاپان میں اسلام کا کیا حال ہوتا، اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔
معروف افراد کی سطح پر تویہ کام نہ ہوسکا۔ تاہم غیرمعروف افراد کے ذریعہ جاپان میں تبلیغی کام کچھ نہ کچھ ہوتا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال الرحلة اليابانية ہے۔ یہ ایک مصری مسلمان علی احمد الجرجاوی کی کتاب ہے۔ انھوں نے ۱۹۰۶(۱۳۲۵ھ) میں جاپان کا سفر کیا۔ واپسی کے بعد یہ کتاب لکھی جو اسی زمانے میں قاہرہ سےشائع ہوئی۔ اس کا ایک نسخہ قاہرہ کے المكتبة الازهریۃمیں موجود ہے۔ قطر کے عربی ماہنامہ الأمۃ کے شماره شوال ۱۴۰۶ھ (جون ۱۹۸۶)میں اس پر چار صفحہ کا تعارف چھپا ہے۔
علی احمد الجرجاوی نے اخبار میں پڑھا کہ جاپان کے بادشاہ میکادو کے حکم سے جاپان میں ایک مذہبی کانفرنس ہو رہی ہے۔ اس میں ہر مذہب کے نمائندے شریک ہوں گے۔ انھوں نے اپنے جریدہ الارشاد میں لکھا کہ مصرسے مسلمانوں کا ایک وفد جاپان کی اس کا نفرنس میں شرکت کرے مگر کسی کو اس سے دلچسپی نہ ہوسکی۔ آخر کار وہ کلکتہ کی جامع مسجد کے امام احمدموسی المصری اور تیونس کے ایک شخص کو لے کر ٹوکیو کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ بحری سفر کا زمانہ تھا۔ وہ اسکندریہ، تونس ، مراکش ، اٹلی، جدہ، عدن ، بمبئی، کولمبو، سنگا پور،ہانگ کانگ، یو کا ہاما ہوتے ہوئے ٹوکیو پہنچے۔ مصر سے جاپان تک ۱۲ ہزار میل سے زیادہ کا سفر کیا۔
ٹوکیو میں معلوم ہوا کہ ہندوستان سے سید حسین عبد المنعم بھی اس کا نفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں۔ ان چار آدمیوں نے ٹوکیو میں ایک مکان کرایہ پر لیا۔ مالک مکان کا نام موسیو جاز نیف تھا۔ سید حسین عبدالمنعم انگریزی سے واقف تھے۔ وہی مترجم کا کام کرتے تھے۔ مالک مکان نے ان لوگوں سے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے اس کے سامنے اسلام کا تعارف کرایا۔ جاپانی نے اسی مجلس میں اسلام قبول کر لیا اور کہا کہ آج سے مجھے مسلمانوں میں سے سمجھو (اعتبروني من الآن في عداد المسلمين)
موسیو جاز نیف نے اسلام کی تبلیغ کے معاملے میں ان لوگوں کی ہر طرح مدد کی۔ یہاں تک کہ چند مہینے کی کوشش سے تقریباً ۱۲ ہزار جاپانی مسلمان ہو گئے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ جاپانیوں میں اسلام کی اشاعت کے سلسلےمیں جو چیز معاون ہوئی وہ یہ کہ جاپانی ایسے لوگ ہیں جن کے اندر فطری طور پر یہ استعداد ہے کہ وہ ہر اس چیز کو قبول کر لیں جو عقل کے موافق ہو(لأنھم قوم عندهم استعداد طبيعي لقبول كل ما يوافق العقل) صفحہ ۵۳
مسلم رہنما ہر جگہ صلیبیت اور صہیونیت اور عرب قومیت کو عالم اسلام کا سب سے بڑا خطرہ بتا رہے ہیں۔مگر وہ تبلیغی اسلام کی تسخیری طاقت سے بالکل بے خبر ہیں۔" سب سے بڑا خطرہ کا انکشاف کرنے والے بہت ہیں مگر " سب سے بڑا امکان کا اعلان کرنے والا کوئی نہیں۔
سوویت روس کی مشرقی سرحد پر جزیروں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان جزیروں کو کو ریل جزیرے (Kuril Island) کہا جاتا ہے۔ یہ جزیرے پہلے جاپان کا حصہ تھے۔ یہ جزیرے ایک ہزار کیلو میٹر سے زیادہ رقبہ میں پہلے ہوئے ہیں۔ وہ زیادہ تر غیر آباد ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے آخرمیں یالٹا کا نفرنس کے فیصلہ کے مطابق، سوویت روس نے کچھ جزیروں پر قبضہ کر لیا۔ یہ واقعہ ۱۹۴۵ کا ہے۔
روس اور جاپان کے درمیان یہ ایک مستقل نزاع کا باعث تھا۔ جاپان کی بار بار کوشش کے باوجود روس ان جزیروں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ مگر جاپان کی غیر معمولی ٹکنکل ترقی کے بعد یہ خود روس کی ایک ضرورت بن گئی۔ کیوں کہ سوویت روس جاپان کی ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ مگر جاپان کا کہنا تھا کہ پہلے ہمارے جزیروں کو ہمارے حوالے کرو ، اس کے بعد ہمارے اور تمہارے درمیان ٹکنکل تعاون کا آغاز ہو سکتا ہے۔
موجودہ نزاع عملاً چار جزیروں پر ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ سوویت یونین اس پر راضی ہو گیا ہے کہ وہ اس میں سے دو خاص جزیروں کو جاپان کے حوالے کر دے۔ جاپان کی حکمراں پارٹی کے لیڈر شنٹار و آبے (Shintaro Abe) نے سوویت یونین کے پروپوزل کو بہت اہم (very important) قرار دیا۔ میں نے اس خبر کو پڑھا تو میری زبان سے نکلا۔ جاپان نے جنگ کے ذریعہ کھویا تھا ، اور امن کے ذریعہ دوبارہ حاصل کر لیا۔
جزائر کو ریل کی واپسی کا مسئلہ جب تک صرف جاپان کا مسئلہ تھا ، روس اس کی واپسی سے انکار کرتا رہا۔ مگر جب ان جزائر کی واپسی سے خود روس کا انٹرسٹ وابستہ ہو گیا تو اس نے اپنی سابقہ پالیسی بدل دی۔ اگر آپ حریف کی ضرورت بن جائیں تو آپ کسی لڑائی کے بغیر اپنے حریف کو جھکانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
۲۲ جون ۱۹۹۰ کو سان فرانسسکو میں جاپان کے وزیر خارجہ اور امریکہ کے وزیر خارجہ کےدر میان ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں جاپانی وزیر نے امریکہ کے ایک مطالبہ کو ماننے سے انکار کر دیا جس کو اخبارات نے ایک بہت بڑا نہیں (very big no) سے تعبیر کیا ہے۔ وہ مطالبہ یہ تھا کہ جاپان اگلے دس برسوں (۲۰۰۰ - ۱۹۹۱) کے درمیان اپنی آمدنی کا دسواں حصہ (چار ٹریلین ڈالر) عوامی سہولت (public amenities) اور سماجی کاموں (social infrastructure) پر خرچ کرے۔ یعنی پارک، سڑکوں اور سیور لائن وغیرہ کا نظام بہتر بنانے پر۔
جاپان کے لوگ دنیا کے بہترین لوگ ہیں۔ نیز جاپان ایک انتہائی دولت مند ملک ہے۔ مگر جاپان کا سیاح حیرت انگیز طور پر دیکھتا ہے کہ جاپان میں تمدنی سہولتیں اس اعلیٰ درجے کی نہیں ہیں جو امریکہ یا مغربی جرمنی جیسے ملک میں نظر آتی ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ جاپان ان مدوں میں اپنی جمع شدہ دولت کا ایک معقول حصہ خرچ کرے۔ مگر جاپان ابھی تک اس کے لیے تیار نہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں جاپان اس قدیم تجارتی اصول پر قائم ہے۔ گھر بناؤ کچا ، کارو بار کر و پکا۔
اس سلسلے میں ایک لطیفہ قابل ذکر ہے، لندن کے ایک اخبار دی انڈپنڈنٹ (The Independent) میں حال میں ایک خط چھپا ہے۔ مکتوب نگار لکھتے ہیں کہ جنت وہ ہے جہاں آدمی کو انگلش مکان ، چینی باورچی، امریکی تنخواہ اور جاپانی بیوی حاصل ہو۔ ہیں کے بر عکس جہنم وہ ہے جہاں کسی کو جاپانی مکان ، انگلش با ورچی ، چینی تنخواہ اور امریکی بیوی دے دی جائے:
Heaven consists of an English house, a Chinese cook, an American salary and a Japanese wife. On the other hand, a Chinese salary and an American wife.
جاپان کے ایک ممتاز لیڈر شنتار واشی ہارا (Shinturo Ashihara) کا ایک آرٹیکل لاس اینجلیز ٹائمس (Los Angeles Times Syndicate) میں چھپا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ اور جاپان کے درمیان ۱۹۶۰ میں جس سیکوریٹی ٹریٹی معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے وہ اب مکمل طور پر فرسودہ (obsolete) ہو چکا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت جاپان نے یہ ذمہ داری لی تھی کہ وہ جاپان میں مقیم امریکی فوجوں کا ۴۰ فیصد خرچ ادا کرے گا۔ مگر اب بدلے ہوئے حالات میں ہم کو نہ اپنے دفاع کے لیے امریکی فوجوں کی ضرورت ہے اور نہ اس کا خرچ ادا کرنے کی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ جاپان اپنے مائیکر و چپ کا رڈ کو استعمال کرنے پر غور کرے تاکہ امریکہ کو ہوش میں لایا جاسکے :
It is time for Japan to consider the possibility of playing our microchip card in order to bring the US to its senses.
اس کو پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ہندستان میں اور جاپان میں کتنا زیادہ فرق ہے۔ ہندستان میں ہمارے لیڈروں کا حال یہ ہے کہ وہ کمیونل کارڈ (ہندو کارڈ، مسلم کارڈ)کھیلتے ہیں۔ مگر جاپان کا لیڈر اپنے سیاسی مقصد کے لیے بھی یہ سوچ رہا ہے کہ اس کو مائیکر و چپ کا رڈ کھیلنا چاہیے۔ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہندستان میں تخریبی سیاست چلائی جاتی ہے اور جاپان میں تعمیری سیاست۔
جدید صنعتی انقلاب نے تمام پرانے معانی کو بالکل بدل دیا ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ اکتوبر ۱۹۹۰ میں شری لال کرشن ایڈ وانی نے سومناتھ سے ایودھیا تک ۱۰ ہزار میل کی جو رتھ یا ترا کی، اس رتھ کا نام" رام رتھ" رکھا گیا تھا۔ مگر حقیقۃً وہ "جاپان رتھ"تھا۔ کیوں کہ وہ رام کی قدیم بیل گاڑی کی نقل نہ تھا۔ یہ در اصل ایک ایر کنڈیشنڈ جاپانی وین تھی جس کو اوپر سے رتھ کی صورت دےدی گئی تھی۔
عباسی خلیفہ ہارون رشید نے فضا میں بادل کے ٹکڑے کو چلتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا کہ جہاں چاہے جاکر برس ، تیر اخراج میرے ہی پاس آئے گا (أمطري حيث شئت فسيأتيني خراجك) آج کی ترقی یافتہ قو میں اگر دنیا والوں سے کہیں کہ تم خواہ جو بھی سرگرمی دکھاؤ، اس کا مالی فائد ہ ہم کو ہی ملے گا تو غلط نہ ہوگا۔
پرانا لطیفہ ہے"عقل بڑی کہ بھینس " مگر موجود ہ ز مانے میں جاپان نے اس میں ایک اور اضافہ کیا ہے۔ اس نے عملی طور پر ثابت کیا ہے "علم بڑا نہ کہ ہتھیار "۔ اس نے اس کو ایک ٹھوس حقیقت بنا کر دکھا دیا ہے۔ ایک امریکی مبصر کے الفاظ میں جاپان نے ثابت کیا ہے کہ آتشیں طاقت (firepower) کے مقابلے میں دماغی طاقت (brainpower) زیادہ بڑی اور زیادہ موثر ہے۔
جاپان نے یہ بر تر طاقت علم کے ذریعہ حاصل کی ہے۔ جاپان نے اپنی علمی ترقی کے ذریعہ ٹکنا لوجی میں نئی بلندیاں حاصل کیں۔ مثال کے طور پر سب سے اعلیٰ سیمی کنڈکٹر جاپان میں تیار ہوتا ہے جو کہ کمپیوٹر کی صحت ِکا ر کر دگی کی ضمانت ہے۔ جاپان کی دو اعلیٰ شخصیتوں کی تیار کی ہوئی ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کا نام معنی خیز طور پر یہ ہے۔ جاپان جو کہہ سکتا ہے کہ نہیں (The Japan that Can Say No) اس کے مصنفین نے جاپان کو مشورہ دیا ہے کہ امریکہ اگر جاپان سے اپنے مطالبات بند نہیں کرتا تو جاپان کو یہ کہہ دینا چاہیے کہ وہ اپنے سیمی کنڈکٹر کی جانکاری (expertise) سوویت روس کو دیدے گا۔ اس پر کچھ امریکی مبصرین نےلکھا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت امریکہ کے لیے " پرل ہار بر" کے برابر ہے۔
جاپان نے اپنی موجودہ صنعتی اور اقتصادی ترقی علم کے ذریعہ حاصل کی ہے۔ ایک امریکی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ بین اقوامی سطح پر امریکی طلبہ بیس صنعتی قوموں میں دسویں نمبر ہیں۔
جاپانیوں کی اسی بڑھی ہوئی معیار پسندی کا یہ نتیجہ تھا کہ انھوں نے اپنی مصنوعات کو بے نقص(zero defect) کے معیار تک پہنچا دیا۔ جاپانیوں کے اس مزاج کے متعلق میں نے ایک آ رٹیکل پڑھا اس میں لکھا تھا کہ زیر و ڈیفکٹ کے معاملے میں ان کا شوق اتنا بڑھا ہوا ہے کہ معمولی جاپانی کارکن بھی اپنی کارکردگی کا تقابل جرمنوں اور امریکنوں سے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر دوسرے لوگ پرزوں کوفی ملین کی سطح سے جانچتے ہیں تو جاپانی یہ چاہتا ہے کہ اس کوفی بلین کی سطح سے جانچے
So relentless are they in their zeal for 'zero defect', that even the ordinary Japanese workers are said to compare their performance with that of the Germans and Americans: If, for instance, others control parts at the per-million level, the Japanese want to do it at the per- billion level.
جاپانی رہنماؤں نے اپنے افراد کے اندر معیار پسندی کا ذہن پید اکیا۔ اس کے برعکس موجودہ مسلم رہنما اپنی قوم کے افراد میں شکایت پسندی کا ذہن پیدا کر رہے ہیں۔ جاپانیوں کی سوچ یہ ہے کہ دوسرے لوگ اگر اچھا کام کر کے آگے بڑھے ہیں تو ہم اور زیادہ اچھا کام کر کے ان سے آگے نکل جائیں۔ جب کہ نام نہاد رہنماؤں نے موجودہ مسلمانوں کے اندر جو ذہن پیدا کیا ہے وہ یہ کہ دوسرے لوگ جس چیز کو لیاقت کی بنیاد پر حاصل کر رہے ہیں۔ اس کو تم مطالبے کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کرو، اور جب مطالبہ اور ڈیمانڈ کی بنیاد پر وہ چیز تم کو نہ ملے تو اس کو تعصب کا نتیجہ بتا کر شکایت اور احتجاج کا لفظی طوفان جاری کر دو۔
ٹوکیو میں ۱۹۰۸ میں اسکول آف فارن لینگویجز قائم ہوا۔ اس میں اردو زبان کا بھی ایک شعبہ تھا۔ اس کے تحت غالباً پہلی بار پانچ جاپانی طالب علموں نے اردو پڑھنا شروع کیا۔ ۱۹۱۱ میں اس شعبہ کو ترقی دی گئی تو طلبہ کی تعداد بھی بڑھنے لگی۔۱۹۰۹ میں مولانا برکت اللہ صاحب بھوپالی اس شعبہ کے استاد مقرر ہوئے۔ وہ مولانا محمود حسن صاحب کی تحریک آزادی کے پروگرام کے تحت انگلینڈ اور امریکہ ہوتے ہوئے جاپان پہنچے تھے۔ اور یہاں ٹوکیو کے مذکورہ اسکول میں اردو کے استاد مقرر ہو گئے۔
مولانا برکت اللہ بھوپالی کئی زبانیں جانتے تھے۔ وہ نہایت متحرک آدمی تھے۔ انھوں نےاپنے زمانہ ٔقیام میں ٹوکیو میں اسلامک فریٹرنٹی (Islamic Fratenity) کے نام سےایک انجمن قائم کی اور اسی نام سے ایک انگریزی اخبار بھی جاری کیا۔ یہ اخبار جلد ہی بند ہوگیا۔اس کے بعد انھوں نے دوسرا پر چہ الاسلام (Al-Islam) کے نام سے نکالا۔ ان پرچوں کانام اگر چہ اسلامی تھامگر عملاً یہ دونوں پر چے سیاسی پر چے تھے۔ حکومت جاپان کو مولانا برکت اللہ بھوپالی کی سیاسی سرگرمیاں پسند نہیں آئیں۔ ۱۹۱۴ میں ان کو اسکول کی ملازمت سے الگ کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہ جاپان سے واپس چلے گئے۔
۸۰ سال پہلے مولانا برکت اللہ بھوپالی کو جاپان میں کام کے جو مواقع ملے تھے اس کو اگر وہ اشاعت ِاسلام کے لیے استعمال کرتے تو آج شاید جاپان کی تاریخ دوسری تاریخ ہوتی۔ موجودہ زمانے میں زبان، جغرافیہ ، تاریخ، کلچر و غیره موضوعات کے تحت ساری دنیا میں مختلف ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ ان اداروں کے تحت مسلمانوں کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اس سے وابستہ ہو کر دنیا کے ہر ملک میں قیام کر سکیں۔ اس جدید امکان کے تحت بیسویں صدی میں لاکھوں مسلمانوں کو ساری دنیا میں رہنے اور کام کرنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ اگر مسلمانوں میں دعوتی ذہن ہوتا تو یہ مواقع موجودہ زمانے میں اسلام کی عالمی اشاعت کا ذریعہ بن جاتے۔ مگر دعوتی ذہن نہ ہونے کی بنا پر یہ مواقع اشاعت اسلام کے حق میں استعمال نہ ہو سکے۔ یہ بلاشبہ سب سے بڑا اسلامی نقصان ہے جو موجودہ زمانے میں ہمیں پیش آیا ہے۔
ٹوکیو کے مذکورہ لسانی اسکول کے ایک اردو ٹیچر مسٹر بدر الاسلام فضلی تھے۔ وہ دسمبر ۱۹۳۰ میں جاپان پہنچے اور ڈیڑھ سال تک وہاں رہے۔ ہندستان واپس آکر انھوں نے "حقیقت جاپان "کے نام سے اپنا مفصل سفرنامہ لکھا تھاجو انجمن ترقی اردو دہلی سے ۱۹۳۴ میں شائع ہوا۔ اس جاپانی سفر نامہ کا ایک جزء الرسالہ دسمبر ۱۹۷۶ میں شائع کیا جا چکا ہے۔
آج جاپان کی کئی یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم ہیں۔ اردو۔ جاپانی لغت بھی شائع کی جا چکی ہے۔ اردو سے متعلق اور بہت سے کام ہورہے ہیں۔ اسکی تفصیل ہفت روزہ ہماری زبان(نئی دہلی) کے شمارہ ۸ جنوری ۱۹۹۱ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
شومی او کاوا (Shumi Okawa) غالباً پہلے جاپانی عالم ہیں جنھوں نے براہ راست عربی سے قرآن کا ترجمہ جاپانی زبان میں کیا۔ جاپان کی کئی یونیورسٹیوں میں اردو، عربی اور اسلامیات کی تعلیم کے شعبے ہیں۔ ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملتی ہے۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں نےبھی جاپان میں اسلام کی اشاعت کا کام کیا ہے۔
۱۹۷۳ میں جب شاہ فیصل نے تیل کی سپلائی جزئی طور پر بند کی تو اچانک دنیا کو معلوم ہوا کہ جدید صنعتی دور میں تیل کو انتہائی اہم حیثیت حاصل ہے۔ اس کے نتیجے میں عرب دنیا نے نئی اہمیت حاصل کر لی اور نتیجۃ ً مسلم کلچر اور اسلامی علوم کا مطالعہ شروع ہو گیا۔ اس سے پہلے جاپان کے اہل علم اسلام کے معاملے میں یورپ اور امریکہ کی کتابوں پر انحصار کرتے تھے، اب ان کے اندر یہ ذہن پیدا ہوا کہ وہ براست طور پر اسلام کا مطالعہ کر کے مسلم دنیا سے واقفیت حاصل کریں۔
۱۹۷۵ میں باقاعدہ طور پر جاپان کی یونیورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم کرنے کا کام شروع ہوا۔ ۱۹۸۵ میں ایک بہت بڑا شعبہ قائم ہوا جس کا انگریزی نام (The Institute of Middle Eastern Studies)ہے۔ اسی طرح ٹوکیو یو نیورسٹی میں(Institute of Oriental Culture) قائم ہے۔ پچھلے برسوں میں جاپان میں اسلام کے موضوع پر کئی سیمینار ہو چکے ہیں۔ مذکورہ انسٹی ٹیوٹ ایک سہ ماہی مجلہ چھا پتا ہے جس کا نام میدان (Maydan) ہے۔ اس میں جاپانی اور انگریزی زبان میں مضامین ہوتے ہیں۔
ایک اخبار میں جاپان میں آنے والے روبوٹ انقلاب (robot revolution) کا ذکر تھا۔ اس کا پہلا جملہ یہ تھا آجکل جو لوگ جاپان آتے ہیں وہ اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ کس طرح جاپان میں ہر صنعتی شعبہ میں روبوٹ مشینیں کام کر رہی ہیں:
Recent visitors to Japan are awe-struck at the proliferation of robots in every field of industrial activity.
مضمون میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں جتنے روبوٹ استعمال ہوتے ہیں، اتنے جاپان میں تنہا استعمال ہو رہے ہیں۔ آگ بجھانا ، گھر کی صفائی کرنا، سمندر کی تہوں میں سامان لے جانا، کار خانوں میں سخت محنت والے کام کرنا ، سرنگوں میں داخل ہونا وغیرہ، وغیرہ روبوٹ کی سائنس کو رو بوٹکس (Robotics) کہا جاتا ہے۔ اب روبوٹکس کی تحقیق خلائی رو بوٹ بنانے کی طرف متوجہ ہے۔ ایسے روبوٹ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جو خلائی کارخانوں میں کام کر سکیں۔ مضمون میں مستقبل کے روبوٹ کے بارے میں بہت سی انوکھی باتیں درج تھیں۔ میں نے ایک ہم سفر سے اس کا ذکر کیا۔ وہ انجینئر تھا۔ اس نے کہا کہ آج جب یہ باتیں کی جاتی ہیں تو وہ لوگوں کو سائنسی افسانہ معلوم ہوتی ہیں مگر اس صدی کے خاتمے تک یہ سب عام بات ہو چکی ہوگی :
We seem to be talking the stuff of science fiction but by the turn of the century all this may sound commonplace.
میں نے سوچا کہ عین یہی بات آخرت کے معاملے میں بھی ہے۔ آج جب لوگوں سے جنت اوردوزخ کی بات کی جائے تو لوگوں کو اس کی صحت پر یقین نہیں آتا۔ حتی کہ آخرت کا اقرار کرنے والے بھی اس کو شعور کی سطح پر سمجھ نہیں پاتے۔ مگر موجودہ زندگی کے ختم ہوتے ہی جنت اور دوزخ ایسے واقعہ کی صورت میں سامنے آجائے گی کہ لوگ محسوس کریں گے کہ یہ تو اتنی بڑی حقیقت تھی کہ اس سے بڑی حقیقت اور کوئی نہیں۔
۹دسمبر کو ظہر کی نماز کے بعد ہوٹل سے ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ یہاں کے قاعدے مطابق در میان میں بس روکی گئی۔ جاپانی پولیس نے تمام مسافروں کو مع سامان اتار کر ان کے پاسپورٹ اور ان کے سامان کی جانچ کی۔ میری باری آئی تو مجھ کو دیکھتے ہی میز کی دوسری طرف کھڑے ہوئے آدمی نے کہا "آپ مسلمان ہیں "میں نے کہا ، ہاں۔ اس کے بعد ابتداءً انگریزی اور اس کے بعد عربی میں گفتگو ہوئی۔ اس نے بتایا کہ میں تین سال تک خرطوم میں رہا ہوں اور "شو یه" عربی جانتا ہوں۔ اس قافلہ میں میں اکیلا مسلمان تھا۔ اس نےسب کی باقاعدہ چیکنگ کی۔ مجھ کو صرف ایک مسکرا ہٹ کے ساتھ چھوڑ دیا۔
قیامت کے دن جو لوگ ایمان و اسلام کے ساتھ پہنچیں گے ، وہ اسی طرح سرسری طور پر دیکھ کر آگے بڑھا دیے جائیں گے۔ مگر جن لوگوں کے پاس ایمان و اسلام کا سرمایہ نہ ہوگا، ان کا سخت حساب ہو گا اور حدیث میں آیا ہے کہ مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ هَلَكَ۔ (صحيح مسلم: 2876)الله اس دن کی ہولناکی سے بچائے۔
جاپانی قوم اول و آخر ایک تجارتی قوم ہے۔ اس کا اخلاق بھی اس کے تجارتی مفاد کے تابع ہے۔ مثلاً اکثر ملکوں میں (خود دہلی میں بھی) ایئر پورٹ یا ائیر پورٹ ہوٹل سے مقامی ٹیلیفون مفت کیا جا سکتا ہے مگر جاپان میں اس کی سہولت نہیں۔ اکثر ملکوں میں ٹرانزٹ مسافرکے لیے ایئر پورٹ ٹیکس نہیں ہوتا مگر جاپان میں ٹرانزٹ مسافر سے بھی ۱۶ ڈالر ائیر پورٹ ٹیکس کے طور پر وصول کیے جاتے ہیں۔ وغیرہ ہندستانی انسان بھی مفاد پسند ہے اور جاپانی انسان بھی مفاد پسند۔ تاہم دونوں میں ایک فرق ہے۔ ہندستانی انسان کے نزدیک مفاد پرستی کا مطلب اکسپلائٹیشن ہے۔ وہ ناقص سامان بیچ کر اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مگر جاپانی انسان کی مفاد پرستی اس کو یہ سکھاتی ہے کہ بہتر سے بہتر سامان تیار کرو تا کہ ساری دنیا تمہار اسامان خرید نے پر مجبور ہو جائے۔ ہند ستانی انسان کا تجارتی مذہب دھوکا ہے ، جاپانی انسان کا تجارتی مذہب اعلیٰ کو الیٹی۔ اس فرق کا مزیدیہ نتیجہ ہے کہ جاپان میں اس قسم کے دنگے کبھی نہیں ہوتے جیسے کہ ہندستان میں ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ "کو الیٹی" کا مزاج آدمی کو امن پسند بناتا ہے اور "دھو کے"کا مزاج فساد پسند۔
لاس اینجلیز سے ٹوکیو تک کا سفر نہایت پرسکون گزرا تھا۔ کیوں کہ اس میں بیشتر جاپانی مسافر تھے۔ چند ہندستانی مسافر بھی تھے۔ ان کے مزاج کا سب سے پہلا مظاہرہ ائیر پورٹ پرگیٹ نمبر۱۷ کے ویٹنگ ہال میں ہوا۔ یہاں ہندستانی لوگ آدھ گھنٹہ کے لیے جمع ہوئے تھے۔ وہ یہاں سے اٹھے تو میں نے دیکھا کہ جگہ جگہ کوڑا پڑا ہوا تھا۔ جہاز کے اندر ایک ہندستانی مسافر نےکافی شراب پی لی۔ اس کے بعد وہ مد ہوش ہو کر چلانے لگے۔ جہاز کا عملہ بڑی مشکل سے ان کو اٹھا کرپیچھے کی سیٹ پر لے گیا۔
میری سیٹ کے قریب ایک امریکی خاتون (Rebecca Becky Medcalf) تھیں۔ وہ سیاح کے طور پر ہندستان جارہی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ میں خدا پر عقیدہ رکھتی ہوں ، مگر کسی مذہب کو نہیں مانتی :
I believe in God, but not in any particular religion.
انہوں نے "مسلم ریلیجن" کا کوئی مطالعہ نہیں کیاتھا۔ البتہ مختصر طور پر عیسائیت اور یہو دیت کو پڑھا تھا ، مگر وہ اس سے متاثر نہ ہو سکیں۔
اس قسم کے لوگ مغرب میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ(اسلام کے علاوہ)مذاہب تحریف کی بنا پر انسانی عقل کو اپیل نہیں کرتے۔ مگر خدا کی معرفت انسان کی فطرت میں پیوست ہے۔ آدمی کسی خارجی مذہب کا انکار کر سکتا ہے مگر وہ خود اپنی فطرت کا انکار نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ جو مذہب کو نہیں مانتے ، وہ عین اسی وقت گہرائی کے ساتھ خدا کے وجودکے معترف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو غیر محرف مذہب (اسلام) مل جائے تو وہ خدا کو بھی ماننے لگیں گے اور خدا کے بھیجے ہوئے سچے مذہب کو بھی۔
درمیان میں جہاز بینکاک میں اترا۔ یہاں کا وقت انڈیا کے مقابلے میں ڈیڑھ گھنٹہ آگےتھا۔ میں نے اپنی گھڑی تبدیل نہیں کی تھی۔ چنانچہ ملک ملک کے اعتبار سے میری گھڑی کا وقت بدلتا رہا۔ امریکہ میں ساڑھے دس گھنٹے کا فرق تھا ، جاپان میں ساڑھے تین گھنٹہ کا ، بینکاک میں ڈیڑھ گھنٹہ کا۔ کراچی میں یہ فرق آدھ گھنٹہ رہے گا اور دہلی پہنچ کر ملک کا وقت اور میری گھڑی کا وقت یکساں ہو جائے گا۔ یہی وہ آفاقی حقیقت ہے جو قرآن میں ربّ المشارق و المغارب کے لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔
بینکاک ایئر پورٹ کی دیوار پر یہ لکھا ہوا نظر آیا کہ بینکاک کا مطلب ہے فرشتوں کا شہر :
Bangkok means - the city of angels.
قدیم زمانے میں ہر قوم نے اسی طرح اپنے شہر ، اپنی زبان ، اپنے پہاڑ ، اپنے دریا ، اپنے درخت ، غرض ہر نمایاں چیز کو خصوصی اہمیت کا حامل سمجھ کر ان کا ایک مقدس نام دے رکھا تھا۔ یہ قدیم مشرکانہ تو ہمات کا نتیجہ تھا۔ اس دور کو اسلام کے موحدانہ انقلاب نے ختم کیا۔ اب مشر کا نہ توہمات اگر کہیں باقی ہیں تو تاریخی آثار کے طور پر باقی ہیں نہ کہ زندہ عقیدہ کے طور پر۔
۱۰دسمبر ۱۹۹۰ کی صبح کو دہلی واپس پہنچا۔ واپسی کے بعد مختلف لوگوں کے خط اور پیغام ملے۔ ان سے ان کے تاثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں صرف ایک تاثر نقل کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحمید خاں صاحب اپنے خط مورخہ ۱۴ دسمبر ۱۹۹۰ میں لکھتے ہیں :
It was indeed a pleasure and heartwarming occasion for us to listen to you during your recent trip to the USA.
ڈا کر صاحب موصوف بلامعاوضہ خدمت کے طور پر ایک ادارہ چلا رہے ہیں۔ اس ادارے کا مقصدامریکہ اور کناڈا میں مقیم مسلم خاندانوں کو مناسب رشتہ ٔنکاح کی تلاش میں مدد دینا ہے۔ ان کا خاص دائرۂ عمل وہ لوگ ہیں جو بر صغیر ہند سے جا کر امریکہ اور کناڈا میں آباد ہو گئے۔ ضرورت مند لوگ حسبِ ذیل پتہ پر ربط قائم کر سکتے ہیں :
Dr. Abdul Hameed Khan, Islamic Marriage Bureau, P.O. Box 472. Atwood, California 92601, U.S.A.