تکبیر، تواضع
اللہ کے مقابلے میں کبّرہ کا حکم ہے اور انسان کے مقابلے میں تواضعوا کا۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں یہ مطلوب ہے کہ اس کو اپنا کبیر بنایا جائے۔ اور انسان کے مقابلے میں یہ مطلوب ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں تواضع کا رویہ اختیار کریں۔ یہی تکبیر اور تواضع دو لفظ میں پورے دین کا خلاصہ ہے۔
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ تم اللہ ہی کی خوب بڑائی بیان کرو۔ وكبره تكبيرا، (الاسراء :۱۱۱) دوسری جگہ فرمایا کہ تم صرف اپنے رب کی بڑائی کرو۔ور بّک فکبّر، (المدثر: ۳)
اللہ کی معرفت کے بعد آدمی کے دل میں اپنے خالق و مالک کے لیے جو سب سے بڑا جذبہ پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے۔ اس کو ساری عظمت صرف ایک اللہ کی طرف دکھائی دینے لگتی ہے۔ وہ اس کے آگے جھک جاتا ہے۔ اللہ کو کبیر کی حیثیت سے دریافت کرنا اس کے اندر یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ اور دوسرے تمام انسان اللہ کے مقابلے میں صرف صغیر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وہ احساس ہے جو ایک مومن کی زندگی میں عبادت، تقویٰ ، خشوع ، تضرع اور انابت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت عیاض بن حمار کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے میری طرف یہ وحی کی ہے کہ تم لوگ تواضع اختیار کرو ، یہاں تک کہ کوئی کسی کے اوپر فخر نہ کرے ، کوئی کسی کے اوپر زیادتی نہ کرے .إِنَّ اللهَ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ تَوَاضَعُوا حَتَّى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِيَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ) صحيح مسلم: 2865(
یہ حدیث بتاتی ہے کہ ایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں کیسا ہونا چاہیے۔ اس کو چاہیے کہ وہ دوسرے انسانوں کے مقابلے میں متواضع بن جائے۔ زیادہ والا کم والے پر فخر نہ کرے۔ طاقتور آدمی کمزور آدمیوں کے اوپر زیادتی نہ کرے۔
ایمان آدمی کے اندر جو شعور اور جو کیفیت پیدا کرتا ہے ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کو اپنا کبیر بنا کر اس کے مقابلے میں اپنے کو صغیر بنالیتا ہے۔ پھر یہی شعور اس کے اندر یہ مزاج پیدا کرتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو قابل احترام سمجھے ، وہ اُن کے ساتھ تواضع کا رویہ اختیار کرے نہ کہ سرکشی اور تحقیر کا۔