علم کی اہمیت
ایک مستشرق نے لکھا ہے کہ محمد کو اس اعتبار سے شہرت حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے پیر ؤوں کو علم صل کرنے کی تاکید کی۔ خواہ اس کے لیے انہیں چین جانا پڑے۔ مورخین بتاتے ہیں کہ انھوں نے کچھ جنگی قیدیوں کو یہ اجازت دی کہ وہ قید سے اس طرح رہائی حاصل کر سکتے ہیں کہ وہ ایک خاص تعداد میں مسلمانوں کو پڑھنااور لکھنا سکھا دیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ ہی میں ایسے مکاتب قائم ہو گئے تھے جہاں لوگوں کو تعلیم دی جائے اور انھیں خواندہ بنایا جا سکے۔
مسلمانوں میں تعلیم مختلف طریقوں سے پھیلی۔ مثلاً قرآن ، حدیث اور فقہ کو سیکھنے کے ذریعہ۔ عربی زبان چونکہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لیے ضروری تھی، اس لیے عربی بھی ان کی تعلیم کا جزء بنی رہی۔ اسی کے ساتھ منطق اور کلام بھی۔ فقہ کا علم گاؤں تک کے لوگوں کے لیے ضروری تھا۔ اس لیے معاشرہ کی ہر سطح پر علم پھیل گیا۔
ہر مسجد مسجد ہونے کے ساتھ مدرسہ کا بھی کام کرنے لگی۔ لوگ مسجد کے صحن میں جمع ہو کرحدیث اور فقہ پرمباحثہ کرنے لگے۔ جب بھی کوئی شخص مستند عالم کی حیثیت اختیار کرلیتا تو لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے اور اس کاگھر ایک مدرسہ بن جاتا۔ لوگ ایک مسجد سے دوسری مسجد کا سفر کرنے لگے تاکہ مستند علماء سے علم حاصل کر سکیں۔ بہت سی مسجدوں میں کتب خانے بن گئے۔ یہ کتب خانے عوام کے لیے حصول علم کا مستقل ذریعہ تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ کتب خانہ اسلامی معاشرہ کا ایک اہم جزء تھا۔ بہت سے ادارے ایسے قائم تھے جہاں ایک لاکھ سے زیادہ کتا میں موجود تھیں۔ وہ لٹریچرجس نے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے محرک کا کام کیا، اس کا بیشتر حصہ انھیں مسلم کتب خانوں کے عربی ترجموں سے حاصل کیا گیا تھا۔
مذکورہ مستشرق اس قسم کی تفصیلات دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ مذہب اسلام نے علم اور تعلیم کے حصول کے لیے ایک مستقل دباؤ پیدا کیا۔ رسمی مدرسوں(اور بغداد کی نظامیہ اور قاہرہ کے الازہر جیسی یو نیورسٹیوں) کے علاوہ اسلام میں دوسرے بہت سے طریقے ظہور میں آئے تو لوگوں کے لیے علم کے حصول کا ذریعہ تھے :
The New Encyclopaedia Britannica, Chicago 1984, Vol. 15, pp. 645-46.
علم کے بغیر آدمی نہ دنیا کو سمجھ سکتا اور نہ دین کی گہری معرفت حاصل کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے علم کونمبر ایک اہمیت دی ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ ہر ممکن ذریعہ کو اختیار کر کے علم حاصل کیا جائے۔