فطرت کی آواز
محمد اسرائیل صاحب بی ایس سی (۲۴ سال) الور کے رہنے والے ہیں۔ ان سے ۴ جنوری ۱۹۹۲ کو دہلی میں ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ کے قاری ہیں اور دوسروں کو بھی الرسالہ پڑھاتے رہتے ہیں۔ انھوں نے کئی سبق آموز واقعات بتائے۔
انھوں نے کہا کہ الور کے گورنمنٹ کالج میں ۱۹۹۰ میں وہ اور مسٹر مدن لال قریب قریب رہتے تھے۔ مسٹر مدن لال وہاں ایم اے ہسٹری کے طالب علم تھے۔ اسرائیل صاحب نے ان کو الرسالہ انگریزی کا ایک شمارہ پڑھنے کے لیے دیا۔ چند دن کے بعد انھوں نے کہا کہ میں نے اس میگزین کو پڑھ لیا۔ تاثر پوچھنے پر انھوں نے کہا : اس کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی رائٹر نہیں بول رہا ہے بلکہ انسان کا نیچر بول رہا ہے۔
یہ بلا شبہ صحیح ترین تبصرہ ہے۔ الرسالہ میں اسلام کا پیغام ہوتا ہے۔ اور اسلام کی بات جب بے آمیز صورت میں پیش کر دی جائے تو وہ عین انسانی نیچر کی بات بن جاتی ہے۔ کیوں کہ اسلام دینِ فطرت ہے۔ اسلام فطرتِ انسانی کامثنیٰ ہے۔ اسلام انسان کا خود اپنا مطلوب ہے۔
قدیم زمانے میں مذہبی تعصب بہت زیادہ پھیلا ہوا تھا۔ یہی مذہبی تعصب پیغمبروں کی بات کو سمجھنے اور ماننے میں رکاوٹ بنتا تھا۔ موجودہ زمانے میں جدید افکار اور جدید تعلیم نے مذہبی تعصب کو ختم کر دیا ہے۔ اب انسانی فطرت سے وہ مصنوعی پر دہ ہٹ گیا ہے جو قدیم زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ اس لیے اسلام اب انسان کے لیے عملاً اتنا ہی قابل قبول بن چکا ہے جتنا پانی کسی پیاسے آدمی کے لیے۔
اب اہل اسلام کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ایسی ہر کارروائی سے بچیں جو ان کے اور غیر مسلموں کے درمیان نفرت کی فضا پیدا کرنے والی ہو۔ اور پھر اسلام کو اس کی سادہ صورت میں لوگوں کے سامنےپیش کر دیں۔ اس کے بعد غیرمسلم قو میں اسلام کو خود اپنے دل کی آواز سمجھ کر اس کی طرف دوڑپڑیں گی۔
اسلام کی نفی کر نا خود اپنی نفی کرنا ہے۔ اور کون ہے جو خود اپنی نفی کرنے کی قیمت پر کسی چیز کا انکار کرے۔