زندہ انسان

لبید بن ربیعہ بن مالک العامری (وفات 41ھ) قدیم عرب کے ایک مشہور شاعر تھے۔ ان کا شمار اصحاب المعلقات میں سے ہوتا ہے۔فتح مکہ سے پہلے انھوں نے اسلام قبول کیا۔شمس الدین الذہبی نے تاریخ الاسلام (4/55) میں لکھا ہے:کہا جاتا ہے کہ اسلام کے بعد انھوں نے شاعری چھوڑ دی، اور کہا:ا للہ نے مجھے اس کے بدلے قرآن دے دیا ہے(أَبْدَلَنِی اللَّہُ بِہِ الْقُرْآنَ)، اور کہا جاتا ہے کہ قبولِ اسلام کے بعد انھوں نے صرف ایک شعر کہا تھا،جو یہ ہے:

مَا عَاتَبَ الْمَرْءُ الْکَرِیمُ کَنَفْسِہِ وَالْمَرْءُ یُصْلِحُہُ الْقَرِینُ الصَّالِحُ

حضرت لبید نے اپنے شعر میں جو بات کہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ شریف آدمی احتسابِ غیر کے بجائے احتساب خویش کے معاملے میں زیادہ حساس ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کی غلطی پر گرفت کرتے ہوئے نرمی کا انداز اختیار کر سکتا ہے، مگر جب معاملہ خود اپنی غلطی کا ہو تو وہ اس کے لیے بے رحم محاسب بن جاتا ہے۔شعر کے دوسرے مصرع میں انھوں نے صحبت کی اہمیت بتائی ہے، آدمی اگر زیادہ دیر تک برے کی صحبت اختیار کرے تو اندیشہ ہے کہ وہ بھی برا بن جائے، اور جب آدمی اچھے انسان کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس کی صحبت کے اثر سے وہ بھی ایک اچھا آدمی بن جاتا ہے۔

خلیفہ ثانی عمربن الخطاب نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک بار حضرت لبید سے کہا کہ اپنے کچھ اشعار سنائیے۔ حضرت لبید نے جواب دیا کہ اللہ نے جب مجھ کو بقرۃ اور آل عمران جیسی سورتوں کی تعلیم دی تو اس کے بعد میرے لیےمناسب نہیں کہ میں شعر کہوں (مَا کنت لأقول شعرا بعد أن علمنی اللہ البقرة وآل عِمْرَان) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،جلد3، صفحہ 1337۔

یہ بات بظاہر قرآن کے مقابلے میں ہے، مگر وسیع تر معنی میں اس کا تعلق دوسری حقیقتوں سے بھی ہے۔ ابتدائی مفہوم کے اعتبار سے اس کا تعلق قرآن کے سامنے خاموشی اختیار کرنے سے ہے، اور وسیع تر انطباق کے لحاظ سے ہر حق کے سامنے اپنی زبان بند کر لینے سے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom