عذر کیا ہے
عذر (excuse) کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی جب کوئی ضروری کام انجام نہ دے سکے، تو اپنی اس غلطی کا جواز (justification) بیان کرنے کے لیے اس کا کوئی ایسا سبب بیان کرے، جو صرف ایک کہنے کی بات ہو، اس کا کوئی حقیقی سبب نہ ہو۔ گویا عذر اپنی حقیقت کے اعتبار سے ہمیشہ ایک بے بنیاد سبب (false excuse) ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ زندگی کبھی عذر سے خالی نہیں ہوسکتی۔ عذر زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس لیے عذر کبھی سچا عذر نہیں ہوتا۔ انسان کا کام یہ ہے کہ وہ عذر کو عذر نہ بنائے، بلکہ منصوبہ بندی کے ذریعے عذر کو عملاً غیر موثر بنادے۔
مثلاً آپ کواپنے وعدے کے مطابق کہیں جانا تھا، اور پھر روانگی سے کچھ پہلے بارش شروع ہوجائے۔ اب ایک انسان وہ ہے جو بارش کو عذر بنا کر گھر میں بیٹھ جائے۔ ایسا آدمی ایک کمزور آدمی ہے۔ سچا انسان وہ ہے جو ایسے موقع پر مینج (manage) کرنے کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ یاتو چھتری کا استعمال کرکے ٹھیک ٹائم پر اپنے وعدہ کے مقام پر پہنچے، اور اگر بالفرض وہ ایسا نہیں کرسکتا تو بارش ہونے کی صورت میں وہ فوراً صاحب ملاقات کو فون کرے، اور اس کو موجودہ صورتِ حال سے واقف کرائے۔
اس دنیا میں کوئی عذر حتمی عذر نہیں ہے۔ ہر عذر مینیجیبل عذر(manageable excuse) ہوتا ہے۔عذر انسان کے لیے عمل میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ ذہن کو زیادہ متحرک کرنے کا ایک موقع ہے۔ با اصول آدمی وہ ہے، جو عذر پیش آنے کی صورت میں اپنے ذہن کو استعمال کرکے مزید غور کرے۔ وہ عذر کو مینج (manage) کرکے اس کو حل کرنے کی تدبیر دریافت کرے۔ وہ عذر کو تدبیر ِکار کا مسئلہ سمجھے، نہ یہ کہ اس کو ناقابلِ حل مسئلہ سمجھ کر بے عملی کا طریقہ اختیار کرے۔ عذر نئی تدبیر کا طالب ہے، نہ کہ کام نہ کرنے کا بہانہ۔