احساسِ محرومی کیوں

ایک آدمی کا قصہ ہے۔ وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ سفر کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے دو پیروں کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اس کو کہیں جانا ہوتا تو وہ پیدل سفر کرکے جاتا۔ وہ دیکھتا تھا کہ دوسرے لوگ سواریوں پر چل رہے ہیں۔ وہ اکثر سوچتا کہ کاش میرے پاس ایک بائسکل ہوتی تو میں بھی سواری پر چلنے کے قابل ہوجاتا۔

اس نے پیسہ اکھٹا کرکے اپنے لیے ایک بائسکل خریدی۔ اب وہ بائسکل پر سفر کرنے لگا۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ دیکھتا کہ دوسرے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر سائکل ہے۔ اس نے سوچا کہ کاش، میرے پاس بھی موٹر سائکل ہوتی تو سفر کرنا زیادہ آسان ہوجاتا۔ اس نے دوبارہ کوشش کی۔ آخر کار اس کے پاس دو پہیوں والا اسکوٹر ہوگیا۔

شروع کے چند دن اس کے لیے بہت خوشی کے دن تھے۔ لیکن جلد ہی اس کے دل میں ایک اور خواہش جاگ اٹھی۔ اس نے سوچا کہ دوسرے کئی لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر کار ہے، لیکن میرے پاس نہیں۔ اب اس نے ایک نئی کوشش شروع کردی۔ ایک عرصے کے بعد اس کی یہ کوشش کامیاب ہوئی، یہاں تک کہ اس نے ایک چھوٹی موٹر کار خریدلی۔

مگر اب بھی اس کی خواہشوں کی حد نہیں آئی۔ اب وہ بڑی موٹر کار کی تمنا کرنے لگا۔ آخر کار وہ دن آیا جب کہ اس کے گھر کے سامنے ایک بڑی کار آکر کھڑی ہوگئی۔ اِسی کے ساتھ اس کا کاروبار بھی بڑھا۔ یہاں تک کہ اس نے دوسری کار اور تیسری کار بھی خرید لی، مگر اب وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ آخر کار وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ گیا اور پھر اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر مرگیا۔

موت سے ایک دن پہلے اس کا ایک دوست اس سے ملا۔ وہ دیر تک اس کے پاس رہا۔ گفتگو کے دوران دوست نے اس سے کہا کہ تم ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ پھر تم نے کاروبار کیا۔ تمھارا کاروبار ترقی کرتا گیا، یہاں تک کہ آج تمھارے پاس مادّی اعتبار سے بہت سی چیزیں ہیں۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دنیا میں میری سب خواہشیں پوری ہوگئیں۔ بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے آدمی نے کہا کہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب میں ایک محرومِ تمنا آدمی کی حیثیت سے مررہا ہوں :

Now I am dying as a case of unfulfilled desires.

یہ کہانی صرف ایک انسان کی کہانی نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پوری عمر اِس کوشش میں گزار دیتا ہے کہ اس کے دل میں جو خواہشیں چھپی ہوئی ہیں وہ پوری ہوں۔ مگر ہر انسان اس احساس کے ساتھ مر جاتا ہے کہ اس کی خواہشیں پوری نہیں ہوئیں۔ اِس معاملے میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔

دوسری طرف حیوانات کو دیکھیے۔ حیوانات بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ بھی کچھ دن جیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں، لیکن کوئی بھی حیوان اِس دنیا میں احساسِ محرومی کے ساتھ نہیں مرتا۔ وہ پیدا ہوکر کچھ دن جیتا ہے اور پھر اِس طرح مرجاتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے بارے میں کسی بھی قسم کا غم یا افسوس نہیں ہوتا۔

انسان اور حیوان میں یہ فرق کیوں ہے۔ اس کا سبب دونوں کے ذہنوں کے فرق میں پایا جاتا ہے۔ حیوان کا ذہن، انسان کے ذہن سے مکمل طورپر مختلف ہوتا ہے۔ حیوان خواہ کوئی بھی ہو، اس کا ذہن حال رُخی ذہن(present-oriented mind) ہوتا ہے۔ اِس بنا پر حیوان کو جو کچھ مل جائے اُسی کو وہ کافی سمجھتا ہے۔ ہر حیوان صرف آج میں جیتا ہے۔ حیوان کے ذہن میں کَل یا مستقبل کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے حیوان کو ملے ہوئے سے زیادہ کی کوئی فکر بھی نہیں۔

اِس کے مقابلے میں انسان کا ذہن مستقبل رُخی ذہن (future-oriented mind) ہے۔ وہ آج پر قانع نہیں ہوتا، بلکہ وہ کَل کے بارے میں بھی فکر مند رہتا ہے۔ اور وہ حال کے ساتھ مستقبل تک کامیاب رہنا چاہتا ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میں انسان کو یہ طویل کامیابی حاصل نہیں ہوتی، اس لیے ہر انسان کا مقدّر بن گیا ہے کہ وہ احساسِ محرومی کے ساتھ دنیا سے چلا جائے۔

تاہم یہ مسئلہ حقیقی نہیں، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کا عرصۂ حیات(life span) ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ جب آدمی مرتا ہے تو وہ ختم نہیں ہوتا، بلکہ وہ اگلے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔خالق کے کریشن پلان (creation plan) کے مطابق، موت سے قبل کی زندگی ٹسٹ دینے کی زندگی ہے، اور موت کے بعد کی زندگی ٹسٹ کے مطابق، اپنا انجام پانے کی زندگی۔ انسان کا ذہنی تناؤ، یا اس کا احساس محرومی صرف اس لیے ہے کہ وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو سمجھ کر اپنی رائے نہیں بناتا۔ وہ ایسا کرتا ہے کہ جو کچھ خالق نے اس کے لیے بعد ازموت مرحلۂ حیات میں مقدّر کیاہے، اس کو وہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں پالینا چاہتا ہے۔

اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی حقیقتِ واقعہ کو سمجھے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو کچھ اس کو کَل ملنے والا ہے، وہ اس کو آج ہی پالینا چاہے۔ جو آدمی درخت لگانے کے دن پھل کا طالب بن جائے اس کے حصے میں صرف مایوسی آئے گی۔ اس کے برعکس، جو آدمی درخت کی تکمیل پر اس کا پھل لینے پر راضی ہوجائے، اس کے لیے نہ کوئی تناؤ ہے اور نہ کوئی افسوس۔

ذہنی تناؤ دراصل چاہنے اور پانے کے درمیان فرق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس فرق کو مٹا دیجئے اور پھر ذہنی تناؤ کا مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔

فارسی کا ایک مثل ہے: یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ (analysis)کرے، اس کے اندرپازیٹیو تھنکنگ پائی جاتی ہو، وہ نفرت اور تعصب سےخالی ہو، اس کے اندر وہ صفت ہو تی ہے،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:اللَّہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتّباعہ، وأرنا الباطل باطلا، وارزقنا اجتنابہ، وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ(تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر مبہم نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعا: اللَّہُمَّ أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ (تفسیر الرازی، 13/37)۔ یعنی اے اللہ، مجھے چیزوں کو اسی طرح دکھا، جیسا کہ وہ ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom