اسٹیج کا فتنہ
موجودہ زمانے میں ایک نیا فتنہ پیدا ہوا ہے، جس کو اسٹیج کا فتنہ کہا جا سکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر شاندار شخصیت ہو، جو اچھا بولنے کی صلاحیت رکھتاہو، جو لوگوں کو خوش کرنے کا فن جانتا ہو، جو عوام پسند لہجہ میں بول سکے، اس کو فوراً اسٹیج مل جاتا ہے۔ اسٹیج ملتے ہی آدمی کی انا (ego) بوسٹ (boost) ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ واپس لوٹنا اس کے لیے ممکن نہیں رہتا۔
اسٹیج ایکٹوزم کے بظاہر دوسرے بہت سے فائدے ہیں — عوامی مقبولیت، ہر جگہ پذیرائی اور ہر قسم کے دنیوی ساز و سامان، وغیرہ۔ یہ چیزیں اس کے اندر مصنوعی شخصیت بنانے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی میں کنڈیشنڈ ہوجاتا ہے۔ جب یہ درجہ آجائے تو اس کے اندر محاسبہ کا ذہن ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں درست راستے پر ہوں۔ مجھے اپنے اندر کوئی تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں۔
جو آدمی مین آف اسٹیج (man of stage)بن جائے، وہ بظاہر کامیاب نظر آتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ سب سے زیادہ ناکام انسان ہوتا ہے۔ اس کے اندر تنقید سننے کامزاج ختم ہوجاتاہے۔ اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل رک جاتا ہے۔ وہ تخلیقی فکر(creative thinking) کے قابل نہیں رہتا۔ وہ صرف آج (today) میں جینے لگتا ہے، کل (tomorrow) کی سوچ اس کے اندر ختم ہوجاتی ہے۔ وہ دوسروں کے اندر جینے لگتا ہے، خود اپنے آپ میں جینا کیا ہے، وہ اس سے نا آشنا ہوجاتاہے۔
ایسا آدمی بظاہر پاتا ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک محروم انسان ہوتا ہے۔ اس کو ہر جگہ انسانوں کی بھیڑ ملنے لگتی ہے، لیکن فرشتوں کی صحبت اس کو حاصل نہیں ہوتی۔ وہ مادی اعتبار سے بھر پور ہوتا ہے، لیکن روحانی (spiritual) اعتبار سے وہ ایک خالی انسان ہوتا ہے۔ وہ بظاہر سب کچھ ہونے کے باوجود حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا۔