معلومات اور تجزیہ

ایک صاحب نے ایک جریدہ دکھایا۔ اس میں سید جمال الدین افغانی کے بارے میں ایک مفصل مضمون تھا۔ اس مضمون کا خاتمہ اس طرح ہوا تھا: سید جمال الدین افغانی نے زندگی کے آخری ایام استنبول میں سخت ذہنی اذیت میں گزارے۔ ان کی زندگی کا واحد مقصد عالم اسلام کا اتحاد تھا جو یہاں پورا ہوتا نظر نہ آتا تھا۔ خفیہ طور پر ان کی جاسوسی بھی کی جاتی۔ آخر اسی کرب میں 1897 کو بعمر اٹھاون برس سرطان کے عارضہ میں انھوں نے استنبول میں وفات پائی۔

سید جمال الدین افغانی کو اپنے زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ افغانستان، مصر، ایران، ترکی وغیرہ میں ان کو بہت زیادہ مواقع ملے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ ہر ملک سے نکال دیئے جاتے کیوں کہ وہ جہاں پہنچتے وہاں وہ حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقریر شروع کردیتے۔ سیدجمال الدین افغانی کی شخصیت کے بارے میں لوتھروپ سٹوڈراڈ نے درست طور پر لکھا ہے: ان کے خیال کے مطابق، مغرب مشرق کا دشمن ہے۔ یوروپ کے سینے میں آج بھی وہی صلیبی روح کام کررہی ہے جو راہب پطرس کے زمانہ میں مصروف کار تھی۔ اہلِ مغرب میں اب بھی وہی تعصب جاری وساری ہے۔ یہ ہر طریقہ سے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کی تحریکات کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عالم اسلام پر واجب ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے متحد ہوجائے۔

سید جمال الدین افغانی اپنی غیر معمولی مقبولیت کے باوجود مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کا سبب تلاش کرتے ہوئے ایک بنیادی بات میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ ان کے اندر غیر معمولی حافظہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی کتاب ایک بار پڑھنے کے بعد ان کے سینے میں محفوظ ہوجاتی تھی، مگر میرے علم کے مطابق وہ تدبر کی صفت سے خالی تھے۔ جن لوگوں کا حافظہ بہت اچھا ہو، وہ ہر مجلس میں معلومات کا انبار بکھیرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی معلومات سے متاثر ہوکر ان کو بڑا عالم مان لیتے ہیں۔ مگر حقیقی عالم وہ ہے جس کے اندر تجزیہ اور تحلیل (analysis) کی صفت ہو، اور میرے علم اور تجربہ کے مطابق فطرت کا یہ اصول ہے کہ جس کے اندر غیر معمولی حافظہ ہوتا ہے اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔

کسی شخص کو حافظہ کی قوت حاصل ہوتو اس کے دماغ میں معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ اکھٹا ہو جائے گا۔ اُس کی گفتگو اور اس کی تقریر و تحریر میں معلومات کی کثرت دکھائی دینے لگے گی۔ عام لوگ اس کو ایک قابل انسان سمجھنے لگیں گے۔ مگر اس کی معلوماتی بارش سے کوئی فصل نہیں اُگے گی۔ حتیٰ کہ اگر آپ سننے والوں سے پوچھیں کہ جس کی تقریر کی تم تعریف کررہے ہو اُس کی تقریر کا خلاصہ کیا تھا تو یہ لوگ اُس کا کوئی خلاصہ بتانے میں ناکام رہیں گے۔

تجزیہ کے بغیر معلومات کی حیثیت ایک جنگل کی ہے۔ تجزیہ کیا ہے۔ تجزیہ یہ ہے کہ مختلف معلومات کاگہرا مطالعہ کرکے اُس کا نتیجہ نکالا جائے۔ مثلاً ہندستان کی آزادی سے پہلے ایک سیاسی لیڈر کی تقریر بہت مقبول ہوئی۔ اُن کا حافظہ اتنا زبر دست تھا کہ وہ محض اپنی یادداشت سے انگریزی حکومت کے خلاف زبردست معلوماتی تقریر کرتے اور پھر یہ کہہ کر لوگوں کو مسحور کردیتے:

Slavery or freedom, choose between the two.

حالاں کہ اگر انہیں بصیرت کی نظر حاصل ہوتی اور وہ حقیقی واقعات کی روشنی میں فیصلہ کرپاتے تو اس کے بجائے شاید وہ یہ کہتے:

Non-corrupt British rule or corrupt Indian rule—choose between the two.

وہ تمام لیڈر جنہوں نے قوموں کو تباہی سے دوچار کیا، وہ وہی لوگ تھے جن کے پاس حافظہ تو تھا مگر اُن کے پاس تجزیہ کی طاقت موجود نہ تھی۔ اس بنا پر وہ حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ نہ سکے۔ حافظہ بھیڑ اکھٹا کر سکتا ہے۔ مگر تجزیہ اور تحلیل کے بغیر کسی نتیجہ خیز جدوجہد کا ظہور ممکن نہیں۔

اس دنیا میں ہر منفی واقعہ میں مثبت پہلو موجود رہتا ہے۔ اگر آپ اس مثبت پہلو کودریافت کرسکیں تو آپ کو کسی کے خلاف شکایت کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom