اختلافِ رائے

ایک بار میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ اہلِ مغرب کی ترقی کا راز کیا ہے۔ انھوں نے جواب دیا — اختلافِ رائے (dissent) کو انسان کا مقدس حق قرار دینا۔ یہ بلاشبہ ایک درست بات ہے۔ لیکن وہ مغربی فکر کی بات نہیں، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔ اِس قانون کو ایک حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اختلافُ أمتى رحمةٌ (کنزالعمال، حدیث نمبر 28686)۔ یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔

اختلاف رائے کا اظہار ہمیشہ تنقید (criticism)کی صورت میں ہوتا ہے۔ مگر تنقید خواہ وہ کسی شخص کے حوالے سے کی گئی ہو، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے مطالعے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ تنقید کا اصل مقصد کسی موضوع پر کھلے تبادلۂ خیال (open discussion) کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ تنقید کا مقصد یہ ہے کہ مختلف ذہن (mind)دیانت دارانہ طورپر (honestly)اپنے نتیجۂ ٔتحقیق کو بتائیں، اور پھر دوسرے لوگ دیانت داری کے ساتھ اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ اِس طرح کا آزادانہ تبادلہ خیال ذہنی ارتقا (intellectual development) کا لازمی تقاضا ہے۔

علم اپنی نوعیت کے اعتبار ایک لامحدود موضوع ہے۔ یہ بات مذہبی موضوع پر بھی اُسی طرح صادق آتی ہے، جس طرح سیکولر موضوع پر۔ اختلافِ رائے بلاشبہ ایک رحمت ہے۔ اختلاف رائے ہر حال میں مفید ہے۔ اِس معاملے میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ اختلاف کرنے والا مسلّم دلیل کی بنیاد پر اختلاف کرے، وہ الزام تراشی کا طریقہ اختیارنہ کرے۔

اختلافِ رائے کے فائدے بے شمار ہیں۔ اِس سے مسئلہ زیر بحث کے نئے پہلو سامنے آتے ہیں۔ اِس سے تخلیقی فکر (creative thinking) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کے ذریعے لوگوں کو موقع ملتاہے کہ وہ دوسرے کے نتیجۂ فکر سے فائدہ اٹھائیں۔ اِس سے مسئلہ زیرِ بحث کے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں، وغیرہ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom