مس ایڈونچرزم
انسان فطری طور پر باہمت (adventurist) پیدا ہوا ہے۔ اگر آدمی ہمت والا نہ ہو تو وہ کوئی اقدام نہیں کرے گا، اور نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کوئی کام اپنی زندگی میں نہیں کرپائے گا۔ فطرت (nature) آدمی کو ابھارتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کسی کام میں لگائے۔ وہ کچھ کرنے والا بنے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو مفید کام میں لگائے۔
اس جذبہ کی بنا پر آدمی فطری طور پر ایڈونچرسٹ (adventurist) بن جاتا ہے۔ وہ اقدام کا طریقہ اختیارکرتا ہے۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ ایڈونچرزم بہت آسانی سے مس ایڈوینچرزم بن جاتا ہے، اور پھرآدمی کے حصہ میں فائدہ کے بجائے نقصان آتا ہے۔ ایڈونچر اور مس ایڈونچر کے درمیان ایک باریک لائن (thin line) ہے، جو ایک دوسرے کو جدا کرتی ہے۔وہ یہ کہ ایڈونچرزم ہمیشہ ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) ہونا چاہیے، نہ کہ محض جوش کے تحت کیا ہوا اقدام عمل۔ جوش کے تحت کیا ہوا اقدام ہمیشہ ناکام ہوتا ہے، اور ویل کیلکولیٹیڈ (well-calculated) اقدام ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔
ضروری ہے کہ آدمی کے اندر جوش کے ساتھ عقل بھی ہو۔ وہ اقدام کے جذبے کے تحت یہ بھی جانے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے، اور کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ کیا چیز اس کے بس کی ہے، اور کیا چیز عملاً اس کے بس سے باہر ہے۔ کسی بھی کام میں پیشگی طور پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا چیز آدمی کے لیے ممکن العمل (possible) ہے، اور کیا چیز نہیں۔
کسی آدمی کے لیے بہترین عقل مندی یہ ہے کہ وہ ایسا کام کرے، جو اس کے بس کا کام ہو۔ جو کام اس کے بس کا نہ ہو، اس کو کرنے سےبہتر ہے کہ آدمی سرے سے کام ہی نہ کرے۔ کام نہ کرنے سے جو چیز پیش آتی ہے، وہ صرف کمی ہے۔ لیکن جوش کے تحت کود پڑنا، اس سے زیادہ غلط ہے، اور وہ ہے —ناقابل تلافی نقصان۔