آزادی کا دور
ایک مرتبہ مغرب کے ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دنیا میں تہذیب کا دور جو آیا ہے، وہ کیسے آیا۔ اس نے کہا کہ فرانس میں جمہوریت کا دور آنے کے بعد اس انقلاب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ اختلافِ رائے (dissent) کو ایک ناقابل تنسیخ حق کا درجہ مل گیا۔ جب ایسا ہوا تو دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور آگیا۔ اس آزادیٔ فکر سے تمام ترقیاں وجود میں آئیں۔ اس آزادیٔ فکر سے لوگوں کو موقع ملا کہ وہ ہر شعبے میں آزادانہ طور پر تلاش و جستجو کریں، اس طرح علم کے بند دروازے کھل گئے، اور ہر قسم کی ترقیاں بلاروک ٹوک ہونے لگیں۔
ترقی ایک فکری عمل ہے۔ فکری عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو آزادانہ طور پر اپنا عمل کرنے کا موقع ملے۔ آزادیٔ فکر کے بغیر علم کے تمام دروازے بند رہتے ہیں، جب کہ آزادیٔ فکر کے ماحول میں علم کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں لمبی مدت تک علم کو ترقی نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اہلِ علم کے لیے آزادانہ جستجو کے مواقع حاصل نہ تھے۔ جدید دور میں جب آزادانہ فکر کے مواقع کھلے تو ہر شخص مسابقت کی دوڑ میں مشغول ہوگیا۔ اس طرح تدریجی پراسس کے تحت علم کی دنیا میں ترقیاں ممکن ہوگئیں۔
علمی ترقی دراصل انسان کے پوٹنشل (potential)کو بروئے کار لانے کا نام ہے، اور پوٹنشل کو بروئے کار لانے کا یہ معاملہ صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہوتا ہے۔ جہاں آزادی نہ ہو، وہاں علمی اور فکری ترقی بھی رک جائے گی۔اس معاملے میں کسی کے خلاف جارحیت ایک ایسی چیز ہے، جس پر پابندی لگائی جائے۔ اس معاملے میں صحیح اصول یہ ہے کہ جب تک آپ پرامن انداز میں اپنا کام کررہے ہیں،تو آپ کو کامل آزادی حاصل رہے گی، آپ کی آزادی پر باپندی صرف اس وقت لگ سکتی ہے، جب کہ آپ کسی دوسرے شخص کے خلاف جارحیت کا انداز اختیار کریں۔ مثلا ًمارنا، پیٹنا، یا تشدد کرنا، وغیرہ۔