اصل سبب جہالت
27 فروری 2002ء کو مغربی ہندستان کے گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ایک واقعہ ہوا۔ کچھ لوگوں نے مشتعل ہوکر ٹرین کے ایک ڈبّہ میں آگ لگادی جس میں تقریباً ساٹھ ہندومسافر جل کر مرگئے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ آگ لگانے والے لوگ مسلمان تھے۔ اُس کے بعد مارچ2002ء میں گجرات کے مختلف شہروں میں فرقہ وارانہ فساد بھڑک اُٹھا۔ اس فساد میں تقریباً ایک ہزار مسلمان مار ڈالے گئے، اور اُن کے بہت سے گھروں اور دکانوں کو آگ لگادی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات میں اس فساد کو کرنے والے لوگ ہندو تھے۔
مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ دونوں واقعات کو کرنے والا ایک ہی مشترک گروہ تھا، اور وہ ہے جاہل اور بے پڑھے لکھے لوگوں کی بھیڑ۔ گودھرا ریلوے اسٹیشن پر جن لوگوں نے ٹرین کے ڈبہ میں آگ لگائی، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ مسلمان۔ اسی طرح ریاست گجرات میں جن لوگوں نے جگہ جگہ خونی فساد کیا، وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ ہندو۔ یہ لوگ اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا۔
تعلیم یافتہ انسان اور غیر تعلیم یافتہ انسان میں کیا فرق ہے۔ وہ شعور اور بے شعوری کا فرق ہے۔ غیر تعلیم یافتہ انسان اپنے نا پختہ شعور کی بنا پر صرف اپنے جذبات کو جانتا ہے۔ اس کے برعکس تعلیم یافتہ انسان اپنے پختہ شعور کی بنا پر اپنے جذبات کے ساتھ اُس کے نتائج (consequences) کو بھی جانتا ہے۔
اسی فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو اگر ٹھیس لگتی ہے، تو وہ بھڑک کر متشددانہ کارروائی کرنا شروع کردیتاہے، خواہ اُس کا نتیجہ زیادہ بڑے نقصان کی صورت میں خود اُس کو بھگتنا پڑے۔ اس کے برعکس اگر تعلیم یافتہ انسان کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے، تو وہ حکمت اور تحمل سے کام لیتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی شعوری بیدار ی کی بنا پر زندگی کی اس عالمگیر حقیقت کو جانتا ہے ——چھوٹے نقصان کو برداشت کرلو تاکہ تمہیں بڑے نقصان کو برداشت نہ کرنا پڑے۔
ایک بڑے شہر کے ریلوے پلیٹ فارم پر دو تعلیم یافتہ آدمی آگے پیچھے چل رہے تھے۔ پیچھے والے مسافر کے ہاتھ میں ایک بڑا بیگ تھا۔ اُس نے تیزی سے آگے بڑھنا چاہا۔ اس کوشش میں اُس کا بیگ اگلے آدمی سے ٹکراگیا۔ اگلا آدمی اچانک پلیٹ فارم پر گر پڑا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ صرف یہ تھا کہ پیچھے والے نے معذرت کے انداز میں کہا کہ ساری(sorry)۔ اس کے بعد آگے والے نے نرمی کے ساتھ کہا کہ اوکے(okay) اور پھر دونوں خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔
اس کے برعکس اگر یہ دونوں مسافر جاہل اور بے شعور ہوتے تو دونوں غصّہ ہوجاتے۔ ایک کہتا کہ تم اندھے ہو۔ دوسرا کہتا کہ تم پاگل ہو۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے لڑ جاتے، خواہ اس لڑائی کا نتیجہ یہ ہو کہ دونوں کی ٹرین چھوٹ جائے، اور وہ اپنی منزل پر پہنچنے کے بجائے اسپتال میں داخل کر دیے جائیں۔
اصلاح کا حقیقی طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے۔ اس قسم کے تمام جھگڑوں کی جڑ جہالت ہے۔ اس لیے اس وقت کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ پورے ملک کو مکمل طورپر تعلیم یافتہ بنا دیا جائے۔ یہی مسئلہ کی اصل جڑ ہے اور اس جڑ کو ختم کرکے فساد کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ہندستان کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ریاست کیرلا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کیرلا میں جھگڑے اور فساد جیسے واقعات پیش نہیں آتے۔ اسی ملکی تجربہ میں مسئلہ کا حل چھپا ہواہےــــــلوگوں کو تعلیم یافتہ بنائیے، اور اس کے بعد فرقہ وارانہ جھگڑے اپنے آپ ختم ہو جائیں گے۔
جارج برناڈ شا نے کہا تھا کہ جس آدمی کے پاس بھُلا دینے کے لیے کچھ نہیں وہی سب سے زیادہ غیر تعلیم یافتہ انسان ہے۔ مستقبل کی تعمیر صرف اُس وقت ممکن ہے، جب کہ پچھلی باتوں کو بھُلا دیا جائے، اور بھلانے کی یہ حکمت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو ان کی تعلیم نے باشعور بنادیا ہو۔