ڈی کنڈیشننگ
پیاز کے اوپر ایک کے بعد ایک پرت ہوتی ہے۔ اگر ان پرتوں کو ہٹائیں تو ہٹاتے ہٹاتے اس کا آخری حصہ آجائے گا جو پیاز کا داخلی مغز ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ فطرت صحیح پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد ماحول کے اثر سے اس کے اوپر خارجی افکار چھانے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدمی کی داخلی فطری شخصیت بالکل ڈھک جاتی ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی متعصبانہ طرزِفکر کا کیس بن جاتا ہے۔ اس کے بعد آدمی اپنی ساری عمر انہی تعصبات کے تحت سوچتارہتا ہے اور آخرکار مر جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے: من شبّ علی شیٔ شاب علیہ (آدمی جس چیز پر جو ان ہوتا ہے اسی پر وہ بوڑھا ہوتا ہے)
یہ صورتِ حال ہر آدمی کومطابقِ واقعہ سوچ (as it is thinking) سے محروم کردیتی ہے۔ اس کا علاج صرف ایک ہے۔ ہر آدمی پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد گہرائی کے ساتھ اپنا جائزہ لے۔وہ اپنی کنڈیشننگ کی دوبارہ ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنی شخصیت پر چڑھی ہوئی اوپری پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ اس کی اصل فکری شخصیت اس طرح کھل جائے کہ وہ تعصبا ت سے پاک ہو کر سوچنے لگے۔ یہ اپنی مصنوعی شخصیت کو دوبارہ حقیقی شخصیت بنانے کا عمل ہے، جو ہر شخص کی ایک لازمی ضرورت ہے۔
اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرنے کا یہ عمل بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے خلاف ایک ذہنی محنت (intellectual labour) کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو اپنی مانوس اور محبوب سوچ کو ذبح کرنا پڑتا ہے۔ اس میں آدمی کو خود اپنے آپ پر بلڈوزر چلانا پڑـتا ہے۔ تاہم یہی واحد عمل ہے، جو آدمی کو متعصبانہ یا غیر حقیقت پسندانہ طرز فکر سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ عمل گویا اپنافکری آپریشن کرنے کا عمل ہے۔ یہ بلا شبہ ایک مشکل ترین کام ہے۔ مگر اس کام کے بغیرکوئی بھی شخص بے آمیز سوچ کا مالک نہیں بن سکتا۔ اس معاملہ میں کوئی بھی دوسری چیز فکری تطہیرکا بدل نہیں۔