کامیاب زندگی کا اصول
26 جنوری 2003 کو میں دہلی سے احمد آباد گیا۔ راستہ میں انڈین ائرلائنز کی فلائٹ میگزین Swagat کا شمارہ جنوری 2003 دیکھا۔ اس میں ایک مضمون کا عنوان یہ تھا —خواب پورا ہوگیا:
A Dream Comes True
اس میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر ودیا ساگر تعلیم کے میدان میں خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ ان کا شوق یہ تھا کہ نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ اس قابل بنائیں کہ وہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے راجستھان کے شہر الور میں ایک اسکول قائم کیا۔ اس اسکول کا نام ساگر اسکول ہے۔ مضمون نگار (Aditi Bishnoi) نے اسکول کی visit کی۔ ان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ودیا ساگر نے کہا —ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اچھے انسان بنائیں، جن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ زندگی میں ہر صورت حال کا سامنا آسانی اور خود اعتمادی کے ساتھ کر سکیں :
Our aim is to produce good human beings capable of tackling all situations in life with ease and confidence (p. 88)
میں سمجھتا ہوں کہ ایجوکیشن خواہ وہ فارمل ایجوکیشن ہو یا انفارمل ایجوکیشن، دونوں ہی کا سب سے اہم نشانہ یہی ہونا چاہیے۔ اسکول اورمیڈیا دونوں کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کے اندر وہ شعور پیدا کریں، جس کے ذریعہ وہ زندگی کے مسائل کا سامنا کامیابی کے ساـتھ کرسکیں۔
اس سلسلہ میں کلیدی بات یہ ہے کہ یہ دنیا لین دین کے اصول پر قائم ہے۔ جیسادینا ویسا پانا۔ اس دنیا میں کامیابی کا سب سے یقینی فارمولا یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ آپ وہی سلوک کریں جو آپ خود اپنے لیے چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو کبھی کسی سے شکایت نہیں ہوگی۔
بزنس میں کہا جاتا ہے کہ کسٹمر فرنڈلی(customer friendly) بنو، تمہارا کاروبار ترقی کرے گا۔ جو اصول تجارت میں کامیابی کے لیے مفید ہے وہی پوری زندگی کے لیے مفید ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر ایک کے لیے کامیاب زندگی کا عمومی فارمولا یہ ہے —تم ہمیشہ انسان دوست بن کررہو:
Be always insan friendly.
دوسروں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہر ایک آپ کے لیے مددگار (cooperative) بن جاتا ہے اور جب پورا سماج آپ کے لیے مددگار بن جائے تو فطری طورپر یہ ہوگا کہ آپ کا ہر کام آسانی کے ساتھ ہونے لگے گا۔ یہ احساس آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے گا کہ آپ جو کام بھی کریں اس میں دوسروں کی طرف سے آپ کے لیے کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔
دوستانہ رویہ کا کوئی محدود مفہوم نہیں۔ کسی سے میٹھی بات بولنا بھی دوستانہ رویہ ہے، راستہ سے رکاوٹ ہٹادینا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کو ایک اچھا مشورہ دینا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی کے خلاف اپنے دل میں برا خیال نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی سے شکایت کے باوجود دل میں تلخی نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے، خیر خواہی کے جذبہ کے تحت کسی کے لیے دعا کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے، ضرورت کے وقت کسی کے کام آنا بھی دوستانہ رویہ ہے، وغیرہ۔کسی کو دکھ نہ پہنچائیے، آپ کو بھی کسی سے دکھ کا تجربہ نہیں ہوگا۔ ہر ایک کے لیے نفع بخش بن جائیے، آپ کو بھی ہر ایک سے نفع ملنا شروع ہوجائے گا۔
تعلیم کا مقصد ملازمت نہیں، تعلیم کا مقصد لوگوں کو با شعور بنانا ہے۔ یعنی ایسا انسان جو معاملات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جانے، جو حالات کا تجزیہ کرکے صحیح نتیجہ تک پہنچ سکتا ہو۔ باشعور انسان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جذباتی اقدام نہ کرے۔ وہ صحیح وغلط اور ممکن و ناممکن کے درمیان فرق کرسکے۔ ایسا انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ استحصالی لیڈروں کے بہکاوے میں نہ آئے۔ وہ خود اپنی عقل کے تحت درست فیصلہ کرے۔ ایسا ہی انسان وہ انسان ہے جس کو حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ انسان کہا جاسکے۔ اسکول اور میڈیا دونوں کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے کی کوشش کرے۔