اپنے خلاف

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی بظاہر دوسرے کے خلاف بولتا ہے۔ لیکن اس کی بات خود اپنے خلاف ہوتی ہے۔ اکثر آدمی’’وہ‘‘ کی زبان بولتا ہے۔ مگر جو بات وہ کہتا ہے، وہ عملاً ’’میں ‘‘ کی زبان میں ہوتی ہے۔ یعنی آدمی ایک ایسی بات کہتا ہے، جس میں اس کی زد بظاہر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ دوسرے کے خلاف ہوتی ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف اس کے اپنے خلاف ہوتی ہے۔

ایسا اس لیے ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر معاملے میں انسان کی نیت کو دیکھا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی نے بولنے سے پہلے کیا سوچا۔ اس کی کون سی سوچ تھی، جس کے تحت اس کی زبان سے وہ الفاظ نکلے جن میں اس نے کوئی بات کہی تھی۔ اسی بات کو ایک فارسی شاعر نے ان الفاظ میں کہا ہے: کجا میں نماید، کجا میں زند۔

یعنی تیر چلانے والا بظاہر کسی اور طرف نشانہ لگاتا ہے، لیکن وہ اپنے تیر سے جس کو مارنا چاہتا ہے، وہ کوئی اور ہوتا ہے۔انسان کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو جانے کہ آدمی جب بھی کوئی بات کہتا ہے تو اس سے پہلے وہ سوچتا ہے۔ سوچنا پہلے ہوتا ہے، اور بولنا اس کے بعد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بات جو آدمی بولتا ہے، اس کے ذریعہ وہ خود اپنا کردار بنا رہا ہوتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ یہ جانے کہ ہر بولنا ایک عمل ہے۔ بولنے کے دوران آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے، مثبت تعمیر یا منفی تعمیر، کبھی شعوری طور پر اور کبھی غیر شعوری طور پر۔

ہر عورت اور مرد کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مثبت بنیادوں پر تعمیر کرے۔ مثبت بنیاد پر تعمیر وہ ہے جس میں انسان کی نفسیات یا تو اللہ رب العالمین سے تعلق کی بنیاد پر بن رہی ہو، یا انسان سے محبت کی بنیاد پر۔ تعمیر خویش کی یہی اصل بنیادیں ہیں۔ آدمی کو ہمیشہ اپنا محاسبہ کرکے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اللہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنی تعمیر کررہا ہے یا انسان سے خیر خواہی کی بنیاد پر۔ ہر عورت اور ہر مرد کو انھیں دو بنیادوں پر اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom