کامیاب فارمولا
بنگلور کے ڈاکٹر احمد سلطان انوکھی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ٹیپو سلطان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ان کامزاج بر عکس طور پر یہ تھا کہ محبت سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ 13 دسمبر 1999 کو تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔
وہ جب بھی دہلی آتے تو مجھ سے ملتے اور اپنے ’ ’ کامیاب فارمولہ‘‘ کی سبق آموز مثالیں بیان کرتے۔ مثلاً ایک بار ان کے صاحبزادے رات کے وقت گاڑی لے کر باہر نکلے۔ وہ گیارہ بجے واپس آئے تو وہ گاڑی باہر کھڑی کر کے گھر میں داخل ہوئے، اور تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ تھوڑی دیرکے بعد دروازے پر دستک کی آواز آئی۔ڈاکٹر احمد سلطان صاحب نے دروازہ کھولا تو دو ہندو نوجوان باہر کھڑے ہوئے تھے۔ انھوں نے غصہ کے لہجے میں بتایا کہ آپ کے صاحبزادہ نے ہمارے اسکوٹر کو ٹکر ماری، اور پھر بھاگ آئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کوئی جواب دینے کے بجائے نرمی سے کہا کہ اندر تشریف لائیے، بیٹھ کر بات ہوگی۔ دونوں اندر آگئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو ایک میز کے کنارے کرسی پر بٹھایا اور کہا کہ اس وقت سردی کا موسم ہے۔ آئیے ہم لوگ پہلے چائے پئیں پھر بات کریں گے۔ تھوڑی دیر کے بعد ان کا غصہ ختم ہو چکا تھا، دونوں خوش خوش واپس چلے گئے۔
ایک بار ایک ہندو نوجوان ان کے پاس آیا۔ اس نے رو کر کہا کہ میں ایک بڑے مسئلہ سے دوچار ہوں۔ آپ میرا مسئلہ حل کیجیے۔ اس نے بتایا کہ مجھ سے ایک غلطی ہوگئی۔ اس کے بعد میرے باپ نے مجھ کو گھر سے نکال دیا۔ چھ مہینے ہو چکے ہیں اور ابھی تک وہ راضی نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ تم انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرو۔ تم خاموشی سے جاؤ، اور اپنے باپ کے قدموں پر سر رکھ کر کہو کہ اے باپ، میری غلطی کے لیے مجھے معاف کر دیجیے۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا۔ جب وہ اپنے گھر گیا تو اس کے باپ نے اس کوڈانٹا۔ بیٹا کوئی جواب نہ دیتے ہوئے باپ کے قدموں پر گر پڑا۔ اس کے بعد باپ کا جذبہ ٔ پدری ابھر آیا۔ اس نے بیٹے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ چند منٹوں کے اندر ساری بات ختم ہوگئی۔
ایک بار ڈاکٹر صاحب ایک شہر میں گئے۔ وہاں کے مسلمانوں نے بتایا کہ جلد ہی یہاں کٹر ہندوؤں کا ایک جلوس نکلنے والا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ زبردست تیاری کر رہے ہیں۔ وہ اپنا جلوس مسلم محلہ سے لے جائیں گے، اور کوئی نہ کوئی بہانہ نکال کر فساد کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ لوگ میرا ایک مشورہ مان لیجیے، اور پھر یہاں کوئی فساد نہیں ہوگا۔ آپ لوگ ایسا کیجیے کہ جس دن جلوس نکلنے والا ہو، بازار سے دو درجن پھولوں کے ہار لے آئیے۔ جب ان کا جلوس آپ کی مسجد کے سامنے پہنچے تو آپ لوگ پھولوں کا ہار لے کر باہر آئیں، اور جو ہندو جلوس کے آگے آگے چل رہے ہیں، ان سے کہیں کہ ہم آپ کا سواگت کرتے ہیں، اور پھر ان کے گلے میں ایک ایک ہار ڈال دیں۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا، نتیجہ یہ ہوا کہ جس دن وہاں ہندو مسلم ٹکراؤ ہونے والا تھا، وہ ان کے لیے ہندو مسلم ملاپ کا دن بن گیا۔
ایک بار بنگلور میں وہ اپنے گھر کے قریب سڑک پر چل رہے تھے۔ پیچھے سے شہر کے ایک ہندو کی گاڑی آئی، جو مسلمانوں کا مخالف سمجھا جاتا تھا۔اس کی گاڑی ڈاکٹر صاحب سے ٹکرا گئی اور ڈاکٹر صاحب سڑک پر گر پڑے۔ ان کو کئی جگہ زخم آئے۔ مذکورہ ہندو اپنی گاڑی روک کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہا کہ آپ میری گاڑی پر بیٹھ جائیں، میں آپ کولے کر اسپتال چلتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ تم فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ یہ مسلم علاقہ ہے۔ مسلمانوں نے اگر تم کو دیکھ لیا تو وہ تم کو مارے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے سخت اصرار کر کے اس کووہاں سے بھیج دیا۔ اس کے بعد مذکورہ ہندو ہمیشہ کے لیے ڈاکٹر صاحب کا دوست بن گیا۔
ڈاکٹر سلطان کے دل میں کسی کے لیے نفرت نہ تھی۔ وہ ہر ایک کو پیار ومحبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مذکورہ کامیاب فارمولہ اپنانے میں کامیاب ہوگئے۔اس دنیا میں محبت سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مگر نادان لوگ نفرت کو سب سے بڑا ہتھیا ر سمجھ لیتے ہیں۔