گفتگو کااصول
عام طو رپر ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے کوئی گفتگو کی جائے، اور درمیان میں کوئی ایسی بات آجائے جو بظاہر صاحبِ گفتگو کے نقطۂ نظر کے خلاف ہو، تووہ فوراً اس کے دفاع میں بولنے لگتا ہے۔ یہ طریقہ علمی گفتگو کا طریقہ نہیں۔علمی گفتگو کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ دونوں فریق ایک دوسرے کی بات کو درمیان میں کاٹے بغیر غیر جانبدارانہ انداز میں سنیں۔ دونوں ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ گفتگو کا مقصد میوچول لرننگ (mutual learning) ہو، نہ کہ دوسرے کی بات کو کاٹنا، اور اپنی بات کو صحیح ثابت کرنا۔
گفتگو کا معیار (criterion) یہ ہونا چاہیے کہ دونوں فریق نے اپنے علم میں کیا اضافہ کیا۔ دونوں فریق نے کیا نئی بات سیکھی۔ دونوں فریق نے گفتگو کے موقع کو کس طرح ذہنی ارتقا (intellectual development) کے لیے استعمال کیا۔
دو آدمیوں کے درمیان گفتگو کا مقصدمناظرہ (debate)نہیں ہوتا، بلکہ شخصیت کا ارتقا (personality development) ہوتا ہے۔ کوئی آدمی جتنا جانتا ہے، وہی جاننے کی حد نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جاننے کا سمندر بہت وسیع ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ہر گفتگو کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے، جس سےاس کے علم میں اور اضافہ ہو، اس کی تخلیقی فکر (creative thinking) اور زیادہ ہوجائے۔
اس کے تجربات کی فہرست میں نئےآئٹم شامل ہوں۔ زندگی کی پلاننگکے لیے اس کے تجربات کا دائرہ (vista) اور وسیع ہوجائے۔ اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرے۔ وہ پہلے سے زیادہ پختہ انسان (mature person)بن کر ابھرے۔ وہ اپنے بارے میں اور دوسرے کے بارے میں زیادہ واقفیت حاصل کرے۔وہ ماضی اور حال کے بارے میں زیادہ جاننے والا بن جائے۔