سوال و جواب
سوال
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں کہ کچھ دنوں پہلے مہاراشٹر کے ایک مقام پر ان کا جانا ہوا تھا۔ وہاں ناروے کے کچھ عیسائی مشنری لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے یہ دو سوال کیے: (1) جنت(paradise) میں داخلے کا معیار (criterion)کیا ہے۔ (2) آپ کے پاس روحانیت (spirituality) کی تعریف کیا ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تامل ناڈو)
جواب
(1) جنت اعلیٰ درجے کا پرامن (peaceful)معاشرہ ہے۔ جنت میں اسی کو داخلہ ملے گا، جو اپنے ہم سایہ لوگوں (neighbours)کے ساتھ کامل معنی میں پرامن انداز میں رہ سکیں۔ اس کا ہر عمل قابل پیشین گوئی کردار (predictable character ) کا حامل ہو۔ جو لوگ اپنے آپ کو دنیا کی زندگی میں اس انداز میں تیار کریں، وہ آخرت میں جنت میں داخلے کا ریوارڈ پائیں گے۔
(2) روحانیت کسی پراسرار صفت کا نام نہیں ہے۔ روحانیت کامل طور پر مثبت انداز میں ذہنی ارتقا کا نام ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ روحانیت مبنی بر قلب ڈیولپمنٹ کا نام ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ روحانیت مبنی بر ذہن ارتقا کا نام ہے۔
سوال
میں ایک عرصے سے آپ کے مضامین اردو اور انگریزی میں پڑھتا ہوں، اورانٹرنیٹ پر آپ کی تقریریں سنتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ الہام کی حقیقت کیاہے؟ یہ وحی سے کس طرح جدا ہے؟(اظہر مبارک، بھاگل پور، بہار)
جواب
اس معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح وحی کی دوقسمیں ہیں — وحی متلو، اور وحی غیر متلو۔ اسی طرح الہام کی بھی دو قسمیں ہیں —— اجتہاداور انسپریشن (inspiration)ہے۔ یہ دو قسم کے معاملات پیغمبر کے ساتھ بھی ہوتے ہیں، اور غیر پیغمبر کے ساتھ بھی۔
اس کی مثالیں غور کرنے سے سمجھ میں آتی ہیں۔ مثلاً مکی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت غیر معمولی قسم کی حکیمانہ تدبیر اختیار کی، جس کوڈی لنکنگ(delinking) کہا جاسکتا ہے، یعنی مکہ کے بت پرست زائرین سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ ان کو دعوت کے آڈینس (audience)کے طو رپر استعمال کرنا۔ یہ ایک غیر معمولی تدبیر تھی، اور اتنی اعلیٰ تدبیر ربانی الہام کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ الہام کی یہ قسم ایسے اہل ایمان کو نصیب ہوتی ہے، جو ری ایکشن کی نفسیات سے اپنے آپ کو کامل طور پر بچائیں۔ بدقسمتی سے مسلم علما نے اس اعلیٰ حکمت کو نہیں سمجھا، اس لیےوہ ایسے الہام کے وعایۃ (container)بھی نہیں بنے۔
ہمارے علما کے لیے اس سے مشابہ حالات پیدا ہوئے، لیکن ہمارے علما نے حدیث کو حکمت (wisdom) کے طورپر نہیں لیا، بلکہ فقہی مسائل کے ماخذ کے طور پر لیا۔ اس لیے ان کا معاملہ یہ ہوا کہ وہ نبوی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہے، وہ خود ساختہ طور پرمسائل میں ترجیحات تلاش کرنے میں الجھ کر رہ گئے۔ جس چیز کو علما ترجیحی قول کہتے ہیں، وہ صرف حکمت نبوی کی دریافت میں محرومی کا نام ہوتا ہے— وحی سے مراد ہےلفظی انسپریشن، جو فرشتوں کے ذریعہ انبیا کو ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں الہام سے مراد ہے، اجتہادی انسپریشن۔
سوال
ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں :سورہ یوسف احسن القصص ہے۔ لیکن دوسرے انبیاء کے مقابلے میں اس میں انذار و تبشیر کا کوئی نمایاں پہلو نظر نہیں آتا۔ حالاں کہ انبیاء کرام کا اصل مقصد یہی ہے۔ وضاحت مطلوب ہے۔ (سید فیض احمد قادری، کوئمبٹور، تامل ناڈو)
جواب
حضرت یوسف کا قصہ جو قرآن میں بیان ہوا ہے، وہ ایک مخصوص پہلو سے بیان ہوا ہے۔ اس میں انذار و تبشیر کا معاملہ شامل نہیں ۔ اس معاملے میں اللہ تعالی کو ایک خاص رہنما ئی دینا مطلوب تھا۔ غالباً اسی بنا پر یہ ہوا کہ حضرت یوسف،جو کہ مصر سے باہر ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے، ان کو وہاں سے مصر میں لایا گیا، جہاں ایک متمدن حکومت قائم تھی۔کیوں کہ یہ مثال مصر جیسے متمدن مقام میں قائم ہوسکتی تھی۔ تاکہ ایک مثال کی صورت میں ایک سنت رسول قائم ہو،وہ یہ کہ اس طرح کی صورت حال میں اہل ایمان کو کیا کرنا چاہیے، یعنی جب داعی ایک ایسے مقام پر ہو، جہاں ایک قائم شدہ حکومت موجود ہو، تو وہاں طریقِ کار(method) کیا ہونا چاہیے۔ وہ طریقہ ایک لفظ میں پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) پر مبنی ہونا چاہیے۔یہ پریکٹکل وزڈم کیا ہے، اس کو حضرت یوسف کی مثال کے ذریعے اس سورت میں بیان کیا گیاہے۔
سور ہ یوسف میں احسن القصص کا لفظ اپنے کامل معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ طریقِ کار کے معنی میں ہے، یعنی حضرت یوسف نے اپنے زمانے میں دعوت کا جو طریقہ (method)اختیار کیا، وہ بہترین طریقہ تھا۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ’’بہترین طریقہ‘‘ سے متعین طور پر مراد غیر نزاعی طریقہ (non-confrontational method) ہے۔
حضرت یوسف کا اختیار کردہ غیر نزاعی طریقہ کیا تھا۔ وہ یہ تھا کہ حضرت یوسف نے بادشاہ سے تخت اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ صرف یہ کیا کہ مصر کے خزائن ارض (زرعی معاملہ [agricultural land]) کا انتظام حضرت یوسف کے حوالے کردیا جائے۔ وہ انتظام کیا تھا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: یوسف نے کہا کہ تم سات سال تک برابر کھیتی کرو گے۔ پس جو فصل تم کاٹو، اس کو اس کی بالیوں میں چھوڑ دو مگر تھوڑا سا جو تم کھاؤ۔ اس کے بعد سات سخت سال آئیں گے۔ اس زمانہ میں وہ غلہ کھالیا جائے گا جو تم اس وقت کے لیے جمع کرو گے، بجز تھوڑا سا جو تم محفوظ کرلو گے۔ پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں پر مینھ برسے گا۔ اور وہ اس میں رس نچوڑیں گے۔ (12:47-49)
بادشاہ مصر کے ساتھ حضرت یوسف کا معاملہ کیا تھا، اس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اور بادشاہ نے کہا، اس کو میرے پاس لاؤ۔ میں اس کو خاص اپنے لیے رکھوں گا۔ پھر جب یوسف نے اس سے بات کی تو بادشاہ نے کہا: ائْتُونِی بِہِ أَسْتَخْلِصْہُ لِنَفْسِی فَلَمَّا کَلَّمَہُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَا مَکِینٌ أَمِینٌ۔ قَالَ اجْعَلْنِی عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ ٌ (12:54-55)۔ یعنی اس کو میرے پاس لاؤ۔ میں اس کو خاص اپنے لیے رکھوں گا۔ پھر جب یوسف نے اس سے بات کی تو بادشاہ نے کہا:آج سے تم ہمارے یہاں معزز اور معتمد ہوئے۔ یوسف نے کہا: مجھ کو ملک کے خزانوں پر مقرر کردو۔ میں نگہبان ہوں اور جاننے والا ہوں۔
بائبل(پیدائش، 41:40) میں اس طریقے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ——سو تُو میرے گھر کا مختار ہوگا، اور میری ساری رعایا تیرے حُکم پر چلے گی۔ فقط تخت کا مالِک ہونے کے سبب سے میں بُزرگتر ہوں گا:
You shall be in charge of my house, and all my people are to obey your commands. Only with regard to the throne will I be greater than you. (Genesis 41:40)
سوال
مجھے نہیں معلوم میں کہاں سے شروع کروں۔ میں جب سولہ سال کی تھی، تو میں نے اپنے اکیس سالہ بھائی کو کھودیا، اس کے فوراً بعد میرے والدین فوت ہوگئے۔ شادی کے بعد میرے دو بھائی (brothers in law) اپنے پیچھے دو لڑکیوں کو چھوڑ کر انتقال کرگئے۔ ایسی کٹھن صورت حال میں میں کیا کروں۔ کیا آپ مجھے کوئی دعا پڑھنے کی نصیحت کریں گے۔ (مز ثنا خان، پاکستان)
جواب
آپ کو جو صورتِ حال پیش آئی ہے، وہ آپ کے لیے ایک نعمت ہے۔ دنیا کے سہارے کا رہنا یا نہ رہنا، دونوں اللہ کے فیصلے ہیں۔ جب آپ دیکھیں کہ دنیا کےسہارے آپ سے ٹوٹ رہے ہیں، تو اس کو پازیٹیوسنس میں لیں۔ اس کو یہ سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ رب العالمین کا آپ کے لیے منصوبہ ہے کہ آپ رب العالمین سے جڑیں، زیادہ سے زیادہ آپ اس کی رحمت کے مستحق بنیں۔ آپ کے اندر زیادہ سے زیادہ اسپریچول ڈیولپمنٹ ہو۔ یہ سب باتیں شکر کی باتیں ہیں، نہ کہ شکایت کی باتیں۔