ایک خط
برادرم مولانا سید اقبال احمدعمری، السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ خط میں آپ کو 11 ستمبر2019 کی شام کو لکھ رہا ہوں۔ میں کئی مہینے سے بیماری کے دور سے گزر رہا تھا۔ آخر کار ہمارے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ مجھ کو دلی کے سب سے اچھے اسپتال میں لے جائیں۔میں اس کےلیے راضی نہیں تھا۔ کیوں کہ نوجوانی کی عمر سے میں یہ سنتا تھا کہ اسپتال انسان کے لیے کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔ مثلاً مشہور اردو شاعر اکبر الہ آبادی نے جدید دور کے بارے میں طنزیہ انداز میں لکھا تھا:
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
انڈیا کے ایک مشہور عالم دین کے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ اسپتال کی زندگی سے بچائے۔ اسی طرح مجھے انڈیا کے دو بزرگوں کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ علاج کے لیے امریکا گئے۔ جب وہ روانہ ہونے لگے، تو ان کے معتقدین نے ان کو مشورہ دیا کہ حضرت امریکا میں یہودی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔آپ یہودی ڈاکٹروں سے ہرگز علاج مت کیجیے گا۔ کیوں کہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہوتے ہیں۔
یہ بات مضحکہ خیز حد تک غیر واقعی ہے۔ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم کا زمانہ ہے۔ مسلمانوں کے دررمیان اس قسم کا ماحول اس بات کے لیے رکاوٹ بن گیا ہے کہ وہ جدید ترقیوں سے فائدہ اٹھائیں۔ وہ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق جدید ترقیوں سے الرجک ہوگئے ہیں۔ان حضرات کو یہ معلوم ہی نہیں کہ موجودہ زمانہ پروفیشنلزم (professionalism) کا زمانہ ہے۔ اب یہودی ڈاکٹر یہود کی حیثیت سے علاج نہیں کرتے، اب کرشچن ڈاکٹر کرشچن کی حیثیت سے کسی انسان کا طبی معاینہ نہیں کرتا، بلکہ خالص پروفیشنل انداز میں وہ اس کام کو انجام دیتا ہے۔
آج کا ایک ڈاکٹر جو کام کرتا ہے، وہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر نہیں کرتا، وہ انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں اس کو انجام دیتا ہے۔ جب وہ اپنا کام انجام دیتا ہے، تو اس کے ذہن میں صرف پروفیشنل تقاضےموجود ہوتے ہیں، کسی بھی غیر پروفیشنل تقاضے سے ان کا ذہن مکمل طور پرخالی ہوتا ہے۔
جدید ترقی کیا ہے۔ وہ دراصل خدا کے پیدا کیے ہوئے امکانات کو دریافت کرکے ان کو استعمال کرنا ہے۔ یہ ترقیاں کوئی غیر اسلامی ترقیاں نہیں ہیں، بلکہ وہ خود خدا کی تخلیق کا حصہ ہیں۔ مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھنے میں بہت زیادہ دیر کی، اب انھیں بلاتاخیراس حقیقت کو سمجھنا چاہیے، تاکہ وہ مزیدنقصان سے بچ جائیں۔
یہ پروفیشنلزم ایک نیا ظاہرہ ہے جو موجودہ زمانے میں پیدا ہوا ہے، مگر امت کے لوگ خاص طور پر علما اس سے مکمل طور پر بے خبر ہیں۔ اسی لیے وہ دورِ جدید کے بارے میں ایسی رائے قائم کرتے ہیں، جو مضحکہ خیز حد تک غیر و اقعی ہوتی ہے۔اس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی حقیقت پسند بنے، وہ کسی انسان کے بارے میں تجربے (experience) کی بنیاد پر رائے قائم کرے، نہ کہ عقیدے کی بنیاد پر۔ یہ معاملہ خالص غیرمذہبی (secular) معاملہ ہے، اس کا مذہبی عقیدے سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دورِ جدید کی اس حقیقت کو دریافت کرے، تاکہ وہ غلط فہمی کی دنیا میں جینے سے بچ جائے۔
- زندگی میں بار بار فیصلہ لینا پڑتا ہے، نئے حالات میں جو لوگ نیا فیصلہ نہ لے سکیں، وہ اس دنیا میں ناکام ہوکر رہ جائیں گے۔
- دعوت دوسروں کے حق میں اپنی خیر خواہی کا اظہار ہے، نہ کہ دوسروں کے اوپر اپنی برتری کا اظہار۔
- دعوت دراصل مدعو سے محبت کا ایک اظہار ہے۔ چوں کہ لوگوں کے سینوں میں دوسرے کے لیے محبت نہیں، اس لیے لوگوں کے سینوں میں دعوت کی تڑپ بھی نہیں ۔
- جو انسان سے محبت کرتا ہے،وہ خدا کا محبوب بنتا ہے، اور جو شخص خدا کا محبوب بنتا ہے، اسی کو آخرت میں جنت میں داخلہ ملے گا۔