مضاہاۃ اغیار

امت کے زوال کے زمانے میں  جو باتیں پیش آتی ہیں، ان میں  سے ایک وہ ہے جس کو قرآن میں  مضاہاۃ (التوبۃ،9:30) کہا گیا ہے۔ مضاہاۃ کا مطلب مشابہت کرنا (to imitate) ہے۔ یہ ظاہرہ ہمیشہ غالب قوم کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ یعنی مرعوبیت کی نفسیات کے تحت کسی قوم کے کلچر یا اس کےطریقِ فکر کا پیرو بننا۔ اس مضاہاۃ کی کوئی واحد متعین صورت نہیں۔ ہر زمانے میں  اپنے دور کے لحاظ سے اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔

مثلاً موجودہ زمانے میں  جدید تہذیب کے ظہور کے بعد ترقی یافتہ قوموں کے درمیان ایک فکر پیدا ہوئی ہے، جس کو انسانی تکریم (human dignity) کہا جاتا ہے۔ یہ تصوُّر آزادی کے معاملے میں  انتہاپسندی(extremism) کے نتیجے میں  آیا ہے۔ آج کے انسان کا یہ کہنا ہے کہ وہ کامل طور پر آزاد ہے۔ اس کی مشابہت میں  مسلمان بھی اسی قسم کی بولی بولنے لگے ہیں۔ مگر ا س کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلام کا اصول تمام تر دعوت الی اللہ پر مبنی اصول ہے۔اسلام کا واحد کنسرن یہ ہے کہ دعوت الی اللہ کے مواقع کھلے رہیں۔ اہل ایمان کے لیے یہ موقع ہو کہ وہ لوگوں کو اللہ رب العالمین کی طرف بلاتے رہیں۔ اگر اہل اسلام کےلیے دعوت الی اللہ کے مواقع موجود ہوں، تو کسی اور سیاسی یا غیر سیاسی تقاضے کو لے کر مطالبے کی تحریک چلانا، اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں۔

ان کے لیے موقع ہو کہ وہ دعوت کا کام کرسکتے ہیں، تو ان کے لیے علاحدہ مسلم لینڈ کے نام سے کوئی تحریک چلانا درست نہیں۔ اگر مسلمان ایسا کریں، تو ان کو اللہ کی مدد حاصل نہ ہوگی، اور جب اللہ کی مدد حاصل نہ ہوگی، تو وہ کبھی اپنے مطالبے میں  کامیاب نہیں ہوں گے۔ اہل ایمان پر اللہ کی مدد ضرور آتی ہے، لیکن اللہ کی مقرر کردہ صراطِ مستقیم پر، نہ کہ کسی اور چیز پر۔ اس دنیا میں  اہل ایمان کی صرف ذمے داریاں ہی ذمے داریاں ہیں، ان کا کوئی حق نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom