اسلام دورِ جدید میں

اسلام آخری دین ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود کے اعتبار سے قیامت تک باقی رہے۔ اسی لیے دین کا تحفظ بھی ایک ضروری اور مطلوب کام ہے۔ موجودہ زمانہ کی بعض تحریکوں نے اس اعتبار سے یقیناً مفید خدمات انجام دی ہیں۔ وہ اسلام کے فکری اور عملی نقشہ کی محافظ ثابت ہوئی ہیں۔ بعض ادارے قرآن اور حدیث اور اسلامی مسائل کے علم کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بعض جماعتیں اسلامی عبادات کے ڈھانچہ کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے کا کام کررہی ہیں۔ کچھ اور ادارے قرآن وحدیث کا متن صحت وصفائی کے ساتھ چھاپ کر ہر جگہ پھیلا رہے ہیں۔ یہ تمام کام بجائے خود مفید ہیں، مگر بہر حال وہ تحفظ دین کے کام ہیں نہ کہ دعوتِ دین کے کام۔ جہاں تک اسلام کو دعوتی قوت کی حیثیت سے زندہ کرنے کا سوال ہے وہ موجودہ زمانہ میں  ابھی تک واقعہ نہ بن سکا۔ حتی کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو شاید اس کا شعور بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر ایسے کاموں کو اسلامی دعوت کا عنوان دے دیتے ہیں، جن کا اسلامی دعوت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

موجودہ زمانہ میں  کسی حقیقی اسلامی کام کے آغاز کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم اس صورت ِحال کو ختم کریں جس نے ساری دنیا میں  اسلامی تحریک کو سیاسی تحریک کے ہم معنی بنا رکھا ہے۔ مسلمان ہر ملک میں  وقت کے حکمرانوں کے خلاف شور وشر برپا کرنے میں  مشغول ہیں۔ کہیں ان کی یہ تحریک غیر مسلم اقتدار کے خلاف برپا ہے، اور کہیں وہ ایک اسلامی سیاسی فلسفہ کے زیر سایہ کام کررہی ہے، اور کہیں فلسفہ اور نظریہ کے بغیر متحرک ہے۔ کہیں اس نے ملی عنوان اختیار کررکھا ہے، اور کہیں نظامی عنوان۔ تاہم سارے فرق واختلاف کے باوجود نتیجہ سب کا ایک ہے — حریفوں کے خلاف محاذ آرائی میں  ضائع کرتے رہنا۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو مسلمانوں نے موجودہ زمانہ میں  بالکل الٹی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ خدانے دعوتِ حق کی راہ سے سیاسی رکاوٹ کو دور کرکے انھیں موقع دیا تھا کہ وہ آزادانہ حالات میں  خدا کے تمام بندوں تک خدا کا پیغام پہنچا دیں۔ وہ خدا کے بندوں کو خدا کی اس اسکیم سے باخبر کردیں، جس کے تحت اس نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور جس کے مطابق وہ ایک ایک شخص کا حساب لینے والا ہے۔ مگر انھوں نے دوبارہ نئے نئے عنوان سے اپنے خلاف سیاسی رکاوٹیں کھڑی کرلیں۔ خود ساختہ سیاسی جہاد میں  ہر ایک مشغول ہے۔ مگر دعوتی جہاد میں  اپنا حصہ ادا کرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔

قرآن میں  ہے کہ اللہ اس کی مدد کرتا ہے جو اللہ کی مددکرے (الحج، 22:40)۔ ہر دور میں  خدا اپنے دین کے حق میں  کچھ امکانات کھولتاہے۔ اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ ہوں جو خدا کے اشارہ کو سمجھیں، اور خدا کے منصوبہ میں  اپنے آپ کو شامل کردیں۔ صحابہ کرام وہ خوش نصیب لوگ ہیں، جنھوں نے اپنے زمانہ میں  خدائی منصوبہ کو سمجھا، اور اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالہ کردیا۔ اس کا نتیجہ وہ عظیم انقلاب تھا جس نےانسانی تاریخ کے رخ کو موڑ دیا۔

بارش کا آنا خدا کے ایک منصوبہ کا خاموش اعلان ہے۔ وہ اعلان یہ ہے کہ آدمی اپنا بیج زمین میں  ڈالے تاکہ خدا اپنے کائناتی انتظام کو اس کے موافق کرکے اس کے بیج کو ایک پوری فصل کی صورت میں  اس کی طرف لوٹائے۔ کسان اس خدائی اشارہ کو فوراً سمجھ لیتا ہے، اور اپنے آپ کو اس خدائی منصوبہ میں  پور ی طرح شامل کردتیا ہے۔ اس کا نتیجہ ایک لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں  اس کو واپس ملتاہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں، ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں، اللہ تعالی نے اپنے دین کے حق میں  کچھ نئے مواقع کھولے تھے۔ یہ مواقع کہ اقتدار کا حریف بنے بغیر توحید اور آخرت کی دعوت کو عام کیا جائے۔ جو کام پہلے معجزاتی سطح پر انجام دینا پڑتاتھا، اس کو عام طبیعیاتی استدلال کی سطح پر انجام دیا جائے۔ جو کام پہلے تعصب کے ماحول میں  کرنا پڑتا تھا، اس کو مذہبی رواداری کے ماحول میں  کیا جائے۔ جو کام پہلے ’’حیوانی رفتار‘‘ سے کیا جاتا تھا اس کو ’’مشینی رفتار‘‘ کے ساتھ انجام دیا جائے۔

یہ موجودہ زمانہ میں  خدا کا منصوبہ تھا۔ خدا نے سارے بہترین امکانات کھول دیے تھے، اور اب صرف اس کی ضرورت تھی کہ خدا کےکچھ بندے ان کو استعمال کرکے ان امکانات کوواقعہ بننے کا موقع دیں۔ مگر مسلم قیادت خداکے اس منصوبہ میں  شامل ہونے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے نئے نئے عنوانات کے تحت وہی سیاسی جھگڑے دوبارہ چھیڑ ددیا، جن کو خدا نے ہزار سالہ عمل کے نتیجہ میں  ختم کیا تھا۔ انھوں نے اسلامی دعوت کو سیاسی اور قومی دعوت بنا کر دوبارہ اسلام کو اقتدار کاحریف بنا دیا اور کہا کہ یہی عین خدا کا پسندیدہ دین ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدعو قوموں کے ساتھ ہر جگہ بالکل بے فائدہ قسم کی مقابلہ آرائی شروع ہوگئی، اور سارے نئے امکانات غیر استعمال شدہ حالت میں  پڑے رہ گئے۔مسلمانوں اور دیگر قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ قائم نہ ہوسکا۔

کام کی ایک سوسال سے بھی زیادہ لمبی مدت مسلمانوں نے کھو دی۔ یہاں تک کہ شیطان نے بیدار ہو کر قدیم شرک کی جگہ جدید شرک (کمیونزم) کی صورت میں  کھڑا کردیا۔ اب کم از کم کمیونزم کے زیر تسلط علاقوں میں  دوبارہ کام کرنے کی وہی مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، جو اس سے پہلے شرک کے زیر تسلط علاقوں میں  پائی جاتی تھیں۔مثلاً چائنا، اور نارتھ کوریا، وغیرہ۔ تاہم غیر کمیونسٹ دنیا میں  اب بھی کام کے مواقع کھلے ہوئے ہیں،اور یہاں پندرھویں صدی ہجری میں  اس صالح جدوجہد کا آغاز کیاجاسکتا ہے، جو چو دھویں صدی ہجری میں  نہ کیا جاسکا۔

  • تدبیری واپسی منصوبہ بند اقدام کا پہلا مرحلہ ہے۔
  • خدا حالات کی زبان میں بولتا ہے۔ عقل والے اس کو سن کر رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اور جوبے بصیرت ہوں، وہ تاریکیوں میں  بھٹکتے ہیں۔
  • حقیقت کو اگر آپ اختیارانہ طور پر نہ مانیں، تو آخر کار آپ کو اسے مجبورانہ طور پر ماننا پڑے گا۔
  • حقیقی کام اور غیر حقیقی کام کا فرق یہ ہے کہ حقیقی کام ہمیشہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، اور غیر حقیقی کام ہمیشہ بے نتیجہ ہوکر رہ جاتا ہے۔
Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom