اعترافِ خطا
توبہ کیا ہے۔ توبہ کا مطلب ہے غلطی کرنے کے بعد دوبارہ حق کی طرف واپس لوٹنا۔ ایک شخص اگر نیک عمل پر قائم ہو، تو یہ بلاشبہ ایک ثواب کی بات ہے۔ لیکن اگر ایک شخص سچائی پر قائم ہو، اور پھر اس کے اندر ڈی ریلمنٹ (derailment)ہو، وہ بھٹک کر غلط راستے پر چلاجائے، اور پھر دوبارہ صحیح راستے کی طرف لوٹے تو یہ اور بھی زیادہ بڑا عمل ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کَیْفَ تَقُولُونَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْہُ رَاحِلَتُہُ، تَجُرُّ زِمَامَہَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ لَیْسَ بِہَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ، وَعَلَیْہَا لَہُ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَہَا حَتَّى شَقَّ عَلَیْہِ، ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ فَتَعَلَّقَ زِمَامُہَا، فَوَجَدَہَا مُتَعَلِّقَةً بِہِ؟قُلْنَا: شَدِیدًا، یَا رَسُولَ اللہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللہِ لَلَّہُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِہِ، مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِہِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2746)۔ یعنی براء بن عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: تم اس آدمی کی خوشی کے بارے میں کیا کہو گے، جس سے اس کی سواری ریگستان میں نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی بھاگ جائے، اور وہاں اس کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو، اور اس سواری پر اس کا کھانا پینا بھی ہو، اور وہ اسے تلاش کرتے کرتے تھک جائے، پھر وہ سواری ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے،جس سے اس کی لگام اٹک جائے،اور اس آدمی کو وہاں اٹکی ہوئی مل جائے؟ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول اس کو بہت زیادہ خوشی ہوگی، رسول اللہ نے کہا:خدا کی قسم، اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس آدمی کی سواری مل جانے کی خوشی سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
اس حدیثِ رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کی طرف واپسی آدمی کو ڈبل ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ جب آدمی حق کو قبول کرنے کا عمل کرتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو ایک ثواب کا مستحق بناتا ہے، اس کے بعد اگر وہ بھٹک جائے، اور دوبارہ حق کی طرف واپس آئے، تو وہ زیادہ بڑے ریوارڈ کا مستحق بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس نے حق کو دوبارہ دریافت (rediscover) کیا۔
دریافت نو (rediscovery) کا انعام زیادہ اس لیے ہے کہ ایسا آدمی اپنی معرفتِ حق میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ ایک دریافت پر دوسری دریافت کا اضافہ کرتا ہے۔ وہ اپنے ذہنی ارتقا کے راستے میں ایک اور منزل طے کرتا ہے۔ ایسے آدمی کا کیس یہ ہے کہ پہلے اگر وہ سادہ معنوں میں حق کی طرف سفر کررہا تھا، تو اب وہ حق کی طرف چھلانگ (jump) کرکے آگے بڑھتا ہے۔ پہلے اگر اس کی معرفت ایک سادہ معرفت تھی، تو اب اس کی معرفت ایک زندہ معرفت بن جاتی ہے۔
حق کی طرف دوبارہ لوٹنا اس بات کی علامت ہے کہ آدمی نے حق کو دوبارہ دریافت کیا، اس نے اپنی دریافت اول پر دریافت ثانی کا اضافہ کیا۔اس نے ثبوت دیا کہ وہ تخلیقی ذہن (creative mind) کا مالک ہے۔
راقم الحروف کا ایک سفر ترکی کے لیے ہوا۔ یکم مئی 2012 کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی اور 7مئی 2012 کی صبح کو دہلی واپسی ہوئی۔ یہ نئے تجربات سے بھرا ہوا ایک سفر تھا۔ اس میں سے ایک یہ تھا کہ دورانِ پرواز جب کھانا دیاگیا تو اس سے پہلے خوب صورت چھپا ہوا مینو (Menu) دیا گیا۔ اس پر لکھا ہوا تھا— بادلوں کے اوپر ہمارے رستوراں میں آپ کا سواگت ہے:
Welcome to our restaurant above the clouds!
اِس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ یہ جنتی مہمان نوازی کی ایک جھلک ہے۔ یہ اعلیٰ مہمان نوازی (high hospitality) دنیا میں غیر معیاری صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ آخرت میں وہ اللہ کے منتخب بندوں کو معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔