ادبی انقلاب
نیوٹن (1727۔1642) کی دریافتوں کے نتیجہ میں جو عظیم ذہنی انقلاب ہوا، اس کے بعد یورپ میں ایک ترقی یافتہ تکنیک وجود میں آئی، اور پھر مطالعہ کے قطعی طریقے (exact methods)پیدا ہوئے، جن کو مسائل پر منطبق کیا جانے لگا۔ اس نہج نے فلسفہ، الہیات اور سیاسیات کے طریق مطالعہ کو متاثر کیا۔ اس باب میں ہم ادب پر اس انقلاب کے اثرات کا مطالعہ کریں گے۔
سائنسی علم (scientific knowledge) سے پیدا شدہ صورت حال نے لکھنے والوں پر قابل لحاظ اثر ڈالا ہے۔شکسپیئر(1616۔1564) جو کچھ پورے اعتماد اور سنجیدگی کے ساتھ لکھ سکتاتھا، وہ ملٹن (1674۔1608) کے لیے ناممکن اور الگزینڈر پوپ (1744۔1688) کے لیےناقابل قیاس تھا، اگر چہ ادبی صلاحیتوں (literary talents) کے اعتبار سے تینوں یکساں بلندی کے انسان تھے۔ شکسپیئر کو تینوں میں سب سے اونچا مقام حاصل ہوا۔ اس کی کم ازکم جزئی وجہ یہ تھی کہ اسے ایک خوش قسمت عہد (fortunate period) ملا۔ وہ انگریزی زبان کے ایک عظیم دورکے آغاز میں اور عظیم ذہنی انقلاب سے پہلے پیداہوا۔ جس زمانہ میں اس نے اپنی تحریریں لکھیں، اس وقت استعار اتی انداز اہمیت رکھتا تھا، جو نیوٹن کے بعد اسے پھر حاصل نہ ہوسکا۔
تمثیل موجودہ زمانہ میں دو قسم کی ہوسکتی ہے۔ ایک تمثیل وہ ہے،جو سائنس داں کے لیے عملی نمونہ (working model) کا کام دیتی ہے۔ ایٹم کا قدیم تصور کہ وہ بالکل گول ہے، انتہائی سخت ہے۔ اسی قسم کا ایک ماڈل تھا۔ بعد کو ردر فورڈ (1938۔1871) کا ایٹمی تصور بھی اس کی ایک مثال تھا، جس کے مطابق اس کے اندر ایک ایٹمی نیوکلیس تھا، جو مثبت برقی چارج رکھتا تھا، اور اس کے گرد الکٹران (electron) سیاروں کی طرح حرکت کررہے تھے۔ تمثیل کی یہ قسم تجزیات سے حاصل شدہ علم کے خلاصہ کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر اندازہ درست ثابت ہو تو ماڈل باقی رہتا ہے، اور اگر اندازہ درست ثابت نہ ہو تو ماڈل کی یا تو تصحیح کی جاتی ہے یا اسے ختم کردیا جاتا ہے۔
ادبی کنایہ (literary analogy) جو عام طورپر تشبیہ کی شکل میں ہوتا ہے، اس کا مقصد بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہ اس لیے وضع کیا جاتا ہے کہ قاری کو ایک بیان کی صداقت کے بارے میں ایک دلچسپ مثال کے ذریعےمتاثر کیا جائے۔ سائنسی ماڈل کے مقابلہ میں یہ بالکل وقتی نوعیت کی چیز ہے۔ سائنسی ماڈل سائنس داں کے اندازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس وقت تک استعمال کیاجاتا ہے، جب تک وہ غلط ثابت نہ ہوجائے۔ مزید یہ کہ ادبی تمثیل اپنی ذات میں کوئی ایک چیز نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ حقیقی نہیں سمجھی جاتی۔
تاہم عظیم ذہنی انقلاب سے پہلے یہ دو قسم کی تمثیلات ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ نہیں تھیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ اخلاقی نظام ہر اعتبار سے نہایت گہرائی کے ساتھ طبیعی دنیا سے مربوط ہے۔ جب شکسپیئراپنے ایک ڈرامہ کے کردار کی زبان سے فوجی نظم وضبط پر استدلال کرتےہوئے اس سے کہتا ہے کہ سورج سیاروں کے درمیان کمانڈر کی سی پوزیشن رکھتا ہے تو وہ محض ایک تشبیہ نہیں دیتا بلکہ اپنے یقین کے مطابق وہ کائنات کی فطرت کے بارہ میں ایک صحیح سائنسی بیان دیتا ہے۔ یہ خدائی نظام کا ایک جز تھا کہ سورج سیاروں کے اوپر حکمراں ہو، اور اسی طرح Agamemnon یونانیوں کے اوپر حکومت کرے، اور ان دونوں میں سے کسی کی حکمرانی میں بھی فرق آنا وسیع تر کائنات میں خلل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا تھا:
The rise of science led to a separation of reason from emotion: and naturally enough, an age of prose followed an age of poetry. (p. 108)
سائنس کے عروج نے عقل اور جذبات کو ایک دوسرے سے الگ کردیا، اور فطری طور پر شاعری کے دور کی جگہ نثر کے دور نے لے لی۔
سترھویں صدی کے وسط سے پہلے نثر بھی رنگین اور شاعرانہ طرز کی ہوتی تھی۔ سویفٹ (1745۔1667) اور اڈیسن (1719۔1672) کے وقت سے یہ محض سخن سازی سمجھی جانے لگی۔ ماقبل سائنس کے استعاراتی انداز کی ایک مثال لائلی (1606۔1554) کی کتاب (Euphues) میں ملتی ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1579 میں شائع ہوئی۔ اس وقت وہ ایک پسندیدہ کتاب تھی،اپنے اسٹائل کے اعتبار سے بھی اور اخلاقی مضامین کے اعتبار سے بھی۔1636تک وہ بار بار چھپتی رہی۔ اس کے بعد عام قارئین میں اس نے اپنی جاذبیت کھودی اور محض ایک ادبی عجوبہ (literary curiosity)بن کر رہ گئی۔
1650 تک ایک شخص انگلش لٹریچر میں عالم خیال اور عالم فطرت کے درمیان کاملیت (wholeness) پاتا ہے۔ اس صدی کے وسط سے دونوں کے درمیان خلیج پیدا ہونا شروع ہوئی، اور آرٹ اور سائنس کی تقسیم کی شکل میں د ونوں الگ الگ ہوگئے۔اس کے بعد انگریزی میں ایک سادہ اور استعارہ اور کنایہ سے خالی انداز پیدا ہونے لگا، جس کی سب سے بڑی وجہ یورپ میں سائنس کی طرف بڑھتا ہوا رجحان تھا۔
سادگیٔ اظہار (simplicity of expression) پیداہونے کی اور بھی وجہیں تھیں۔ مثلاً سترہویں صدی میں جب تعلیم بڑھی، تو یونان اور لاطینی کلاسیکل کتابوں کے مقابلہ میں لوگ زیادہ تر فلکیات، بحریات، جہاز سازی اور گھڑی سازی کے مطالعے میں دلچسپی لینے لگے۔ اس طرح فطری طورپر سادہ زبان کا رجحان بڑھا۔ کیونکہ یہ مضامین شاعرانہ طرز کے ادب میں بیان نہیں کیے جاسکتے تھے۔ پچھلے سو برس میں اخبار کی زبان بھی اس سے متاثرہوئی ہے۔ تعلیمی انفجار (literary explosion) کے بعد عوامی صحافت (popular journalism) پیدا ہوئی، اور اسٹائل میں سادگی آتی چلی گئی۔ سترھویں صدی کے بعد پیدا ہونے والے ادب کو ٹھیک ٹھیک حقائق (precise facts) بیان کرنے تھے۔ اس لیے سادہ اندازِ بیان کا پیدا ہونا بالکل فطری تھا۔
سپراٹ (Sprat) نے 1667میں (History of Royal Society) لکھی،اور اس میں نثر کے اسٹائل کے اصول مقرر کیے۔ اس میں اس نے لکھا کہ ہم کو فطری طرز کلام (natural way of speaking) اختیار کرنا چاہیے جس میں ریاضیاتی ڈھنگ کی واقعیت ہو، اور لفظی رنگینیوں سے خالی ہو۔1664 میں رائل سوسائٹی نے بالقصد ایک کمیٹی قائم کی جس کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی زبان کے اسٹائل میں اصلاح کی کوشش کرے۔
اس وقت کے یورپ میں عوامی لہر پوری طرح شعر، استعارہ اور شاعرانہ نثر (poetic prose) کے خلاف تھی۔ فلاسفہ عام طورپر اس طرح کے بیان کو سچائی (truth)میں ایک رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ہابس (1679۔1588) کے نزدیک وہ سیدھے فکر (straight thinking)میں خلل پیدا کرنے والا تھا۔ روسو (1712-1778) نے کہا تھا کہ ڈیکارٹ (1596-1650) کے فلسفہ نے شاعری کو قتل کردیا ہے۔ جان لاک (1632-1704) نے صاف طورپر کہا کہ شاعری خوبصورت تصویروں کا مجموعہ ہے،مگر وہ بنیادی طورپر گمراہ کن ہے۔
ملٹن آخری شاعر تھا جو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، اور سرٹامس براؤن (1682-1606) شاید آخری شخص تھا،جس نے اس طرز کی نثر لکھی۔ ٹامس براؤن ایک تعلیم یافتہ شخص تھا۔ مگر وہ قدیم طرز کی زبان استعمال کرتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خواہش کے باوجود رائل سوسائٹی کا فیلو نہ بنایا جاسکا۔ اس وقت کے اہلِ فکر ایک ایسی نثر وجود میں لانا چاہتے تھے جو فلسفۂ فطرت کے نئے میکانکی تصور سے ہم آہنگ ہو:
They were interested in the development of prose style in accordance with new mechanical concepts of natural philosophy. (p. 117)
نثر میں سادگی پیدا کرنے کی تحریک کا سہرا خاص طور پر جان ڈرائڈن (1631-1700) کے سر ہے۔ اس نے مسلسل اس کی تبلیغ کی، اور خود سادہ نثر استعمال کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جدید انگریزی درحقیقت ڈرائڈن کی زبان ہے۔
اٹھارویں صدی کو ’’ایج آف ریزن‘‘ کہاجاتا ہے۔ نیوٹن کے بعد محسوس کیاگیا کہ جس طرح عالم افلاک میں نظم وضبط ہے، اسی طرح لٹریچر کو بھی نظم وضبط کا پابند ہونا چاہیے۔ اڈمنڈ والر (1606-1687) اور ڈرائڈن نے شاعرانہ زبان کے ذریعہ تاثیر پیدا کرنے کے بجائے یہ کوشش کی کہ متوازن خیالات (well-balanced thoughts) کو معتدل اور مناسب زبان میں ادا کرکے یہ فائدہ حاصل کیاجائے۔
اڈیسن (1672-1719) نے اپنی کتاب (The Spectator) میں انھیں خیالات کی وکالت کی۔اس ادبی تحریک (literary move) نے ارسطو کو دوبارہ اہمیت کا مقام دے دیا۔ پوپ نے فطرت (nature)کی پیروی کی تلقین کی، انگریزی شاعر ورڈسورتھ (William Wordsworth)کی بیان کردہ فطرت کی نہیں، بلکہ وہ فطرت جس کو نیوٹن نے دریافت کیا تھا۔
ولیم بلیک(1757-1827) نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ وہ شاعر (poet)کو اسی قسم کی ایک مخلوق سمجھتا تھا، جیسے قدیم اسرائیلی پیغمبر۔ اسی طرح ورڈسورتھ (1770-1850) نے بھی اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس نے کہا کہ حقیقت کی کچھ اور قسمیں ہیں، جو ان مادی صداقتوں کے علاوہ ہیں، جن کو سائنس داں بیان کرتے ہیں۔ یہ دوسری قسم کی صداقتیں وہ ہیں جن تک صرف شاعر کی پہنچ ہوسکتی ہے۔
رومانوی تحریک (Romantic Movement) ایک معنی میں نیوٹنی قطعیت (Newtonian Certainty)کے خلاف شاعرانہ رد عمل تھی، اور ہابس کے خلاف جس نے کہا تھا کہ انسان بنیادی طورپر ایک مشین ہے۔رومانیت (Romanticism) ایک قسم کی فراریت (escapism) تھی۔ رومانیت شاعری کے اندر 1798 سے جنگ عظیم 1914-18 تک رہی۔
اب یورپ میں تین سو سالہ دور کا ردعمل ہورہا ہے۔ صنعتی دور کی خشکی سے اکتا کر وہ سائنس کے ساتھ آرٹ کی اہمیت کو بھی تسلیم کررہا ہے۔ سترھویں صدی میں سائنس نے زبردست ترقی کی تھی۔ آرٹ نے بھی قدیم زمانہ میں بہت بلند مقام حاصل کیا تھا۔ ہوسکتا ہے مستقبل میں وہ دوبارہ اپنے مقام پر لوٹ آئے۔
)جان فریڈرک ویسٹ (John Frederick West) کی کتاب دی گریٹ انٹلکچول ریولیوشن کے ایک باب استعارہ کی موت [The Death of Metaphor] کا ترجمہ(