دنیا کی مصیبت
قرآن ذکر کی کتاب ہے۔ قرآن کا مقصد انسان کو خالق کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ (42:30)۔ یعنی تم پر کوئی سختی آئے، وہ بدلہ ہے اس کا جو کمایا تمہارے ہاتھوں نے اور وہ درگزر کرتا ہے بہت سی چیزوں سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبت کا کوئی تجربہ جو آدمی کو پیش آتا ہے، وہ آدمی کے اپنے ہی کیے ہوئے کا نتیجہ ہوتا ہے، کسی دوسرے انسان کے ظلم کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ تاہم کچھ مصیبتیں واقع ہونے سے پہلے قانونِ فطرت کے تحت ٹال دی جاتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی آدمی پر کوئی مصیبت پڑے تو اس کا سارا فوکس خود اپنی ہی غلطی کو تلاش کرنے پر مرتکز ہونا چاہیے۔ کیوں کہ اس کے اپنے سوا کوئی اور اس مصیبت کا سبب بطور واقعہ ہے ہی نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی اگر اپنی مصیبت کا الزام دوسروں کو دے، تو وہ بے بنیاد الزام ہوگا، کیوں کہ کوئی دوسرا موجود ہی نہیں، جس نے وہ مصیبت آپ پر ڈالی ہے۔انسان پر کوئی دنیوی مصیبت پڑے، تو اس کا سارا دھیان خوداپنی کوتاہی کو تلاش کرنے پر لگانا چاہیے،نہ کہ کسی دوسرے کے ظلم کو دریافت کرنا۔ معاملات کو اپنی ذات کے اعتبار سے سوچا جائے، تو خود احتسابی پیدا ہوتی ہے، اور جب معاملات کو دوسرے کی نسبت سے سوچا جائے، تو شکایت او ر نفرت کا جذبہ ابھر تا ہے۔ خود احتسابی اصلاح ہے، او ر شکایت صرف بے فائدہ رد عمل۔
مصیبت اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک تجربہ (experience) ہے۔ مصیبت کو جب صرف مصیبت سمجھا جائے، تو بے نتیجہ افتاد ہوگی۔ لیکن جب مصیبت کو تجربہ بنادیا جائے، تو مصیبت آدمی کے لیے سبق کا ذریعہ بن جائے گی۔ ہر مصیبت میں ایک سبق موجود ہوتا ہے، اس سبق کو دریافت کیجیے۔ اس کے بعد کوئی مصیبت مصیبت نہ رہے گی۔