مدعیانہ زبان، علمی زبان
ایک بات وہ ہے، جو مدعیانہ زبان میں کہی جائے، اور دوسری بات وہ ہے جو علمی زبان میں کہی جائے۔ مدحیہ قصائد سب کے سب مدعیانہ زبان میں لکھے گئے ہیں۔ یعنی لفظی دعوی مگر اس کی دلیل موجود نہیں ہے۔ مثلا دہلی کے پرانے قلعےمیں ایک میوزیم ہے۔ ایک بار میں وہاں گیا تو دیکھا کہ اس میں ایک ٹوٹا ہوا پتھر رکھا ہوا ہے، جس پر لکھا ہوا ہے: ہمیشہ باد بزیر سپہر بو قلموں (آسمان کے نیچے ہمیشہ اس کی رونق قائم رہے)۔ یہ پتھر مغل دور کے کسی محل میں لگا ہوا تھا۔ مگر آج اس محل کا کہیں وجود نہیں ۔
مدعیانہ کلام میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر آدمی کے پاس الفاظ ہوں، تو وہ شاندار الفاظ کے ذریعہ ایسا دعوی کرسکتا ہے، جس کا حقیقت کی دنیا میں کوئی وجود نہیں۔ مثلاً ایک باپ کہہ سکتا ہے کہ میرا بیٹا تاریخ کا سب سے بڑا عالم ہے۔ اس طرح کے دعوے کے لیے الفاظ کافی ہیں۔ خواہ دلیل کے اعتبار سے سرے سے اس کی کوئی حقیقت نہ پائی جاتی ہو۔ اس کے مقابلے میں،علمی زبان وہ ہے، جو تمام تر دلائل پر قائم ہے، جس کی حقیقت کو ہر آدمی جانچ کر سمجھ سکتا ہو۔ راقم الحروف نے جدیدیات کے مطالعے کے دوران ایک کتاب پڑھی۔ کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:
The Great Intellectual Revolution, by John Frederick West, J. Murray, 1965, pp. 132
جو آدمی جدید دور کو سمجھنا چاہتا ہے اس کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سائنس کا دور آنے کے بعد جس طرح دوسرے انقلابات ہوئے، ان میں سے ایک انقلاب وہ ہے، جس کا تعلق طرزِ بیان سے ہے۔ اب علم کی دنیا میں ایک نیا طرز بیان رائج ہوا ہے، جو تمام تر قدیم طرز سے مختلف ہے۔ اس طرز بیان کو ایک لفظ میں مبنی بر حقیقت (fact based)طرز بیان اور دوسرے الفاظ میں اس کو سائنٹفک طرز بیان کہا جاسکتا ہے۔