قتال کا معاملہ

قرآن میں  ایک آیت اس طرح آئی ہے:إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں  اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔ یہ آیت مطلق معنی میں  قتال کی فضیلت نہیں بتاتی۔ بلکہ وقتی ضرورت کے تحت پیش آنے والے حالات کو بیان کرتی ہے۔

اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قتال (لڑائی) ابدی طور پر اللہ کے نزدیک ایک محبوب فعل ہے۔ بلکہ اس میں  وقت کے ایک تقاضے کا ذکر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آیت کے نزول کے وقت جب کہ ختمِ فتنہ کے لیے دفاعی طو رپر جنگ ہورہی تھی، اس وقت سب سے زیادہ مطلوب فعل یہ تھا کہ جنگ کے محاذ پر اہلِ ایمان کی صفوں کو تقویت دینے کے لیے مخالف طاقتوں سے جنگ کی جائے۔ تاکہ تاریخ کا منصوبہ مکمل ہو، اور دنیا میں  دعوت کا وہ پرامن دور آئے، جو کہ فطرت کے نظام کے مطابق، خالقِ فطرت کو مطلوب ہے۔

متحد ہو کر لڑنے کا مطلب یہ ہے کہ چوں کہ فتنہ پسند طاقتوں نے متحدہ طاقت کے ذریعے ناقابل تقسیم طاقت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے اس متحد فتنہ کو ختم کرنے کے لیے جوابی اتحاد کی ضرورت ہے، ورنہ وہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہاں فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution ) کا فتنہ ہے۔ اب یہ فتنہ (religious persecution ) عملا ًختم ہوچکا ہے۔ اس لیے اس کے خلاف متحدہ جنگ کی ضرورت بھی عملاً باقی نہیں رہی۔

موجودہ دور امن کا دور ہے۔ اس دورکو قرآن کی ایک اور آیت کے مطالعے سے زیادہ واضح طو رپر سمجھا جاسکتا ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں : وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَى اللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ (8:61)۔ یعنی اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بیشک وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom