رد عمل، منصوبہ بندی
انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں مسلمانوں کے لیے کچھ نئے حالات پیدا ہوئے۔ ہمارے مصلحین ان حالات کے جواب میں پرجوش طور پر کھڑے ہوگئے۔ بظاہر ان کے حلقۂ عمل مختلف تھے، لیکن خلاصے کے طور پر دیکھا جائے تو ہر ایک کا کیس عملا ًایک تھا، اور وہ تھا رد عمل (reaction) کا کیس۔ میرے علم کے مطابق، کسی نے ایسا نہیں کیا کہ وہ حالات کا مطالعہ کھلے ذہن کے ساتھ کریں، وہ مثبت ذہن کے ساتھ حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں، اور پھر کسی تاثر پذیری کے بغیر خالص قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا لائحہ عمل طے کریں۔
سنتِ رسول کے مطابق، کرنے کا کام یہ تھا کہ حالات کے اندر مواقع کو تلاش کیا جائے، اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ لیکن ہر ایک نے یہ کیا کہ وہ ری ایکشن کے طور پر کھڑا ہوگیا، اور وقتی جذبے کے تحت ایک عمل شروع کردیا۔ میرے علم کے مطابق، ان میں سے کوئی ایسا نہ کرسکا کہ وہ سنت رسول کا گہرا مطالعہ کرکے مبنی بر مواقع اپنے عمل کا نقشہ بنائے۔ اسی لیے اس ردعمل کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیوں کہ مثبت فائدہ ردّعمل کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ گہری منصوبہ بندی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
مثلاً بہت سے لوگوں نے قوم کی تعلیم کا منصوبہ بنایا، لیکن ان کی تعلیم کا مقصد زیادہ تر یہ تھا کہ کچھ کتابیں تیار کرکے پڑھادی جائیں۔ ان حضرات کی تعلیم میں ایک اہم چیز مفقود تھی، اور وہ ہے اسٹرکٹ کامپٹیشن(strict competition )۔ یہ لوگ جن کو تعلیمی ریفارمر کہا جاتا ہے، وہ تقریباً سب کے سب فیور (favour) کو جانتے تھے، حالاں کہ اس معاملے میں اصل چیز کامپیٹیشن ہے، نہ کہ فیور (favour)۔ امریکا میں ہر میدان میں یہ اصول ہے کہ کمپیٹ یا پیرش(compete or perish)، یعنی مقابلہ کرو، یا ختم ہوجاؤ۔ عام زبان میں اس کو کرو یا مرو(do or die) کہاجاتا ہے۔