حدیثِ تجدید

امتِ محمد ی میں  بعد کے زمانے میں  تجدید کا عمل جاری ہوگا۔ اس عمل کا اشارہ قرآن میں  موجودہے(الحدید، 57:16-17)۔ اس حقیقت کو ایک حدیثِ رسول میں  ان الفاظ میں  بیان کیا گیا ہے: عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ اللَّہَ یَبْعَثُ لِہَذِہِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَہَا دِینَہَا (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 4291)۔ یعنی ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بیشک اللہ اس امت کے لیے مبعوث کرے گا، ہر صدی کے سرے پر کسی کو جو اُن کے لیے ان کے دین کی تجدید کرے گا۔

اس روایت میں  شارحین نےزیادہ تر شخصیت پر فوکس کیا ہے، یعنی انھوں نے بتایا ہے کہ کوئی مجدد کامل ہوگا، کوئی الف ثانی کا مجدد ہوگا، کوئی مجدد تفسیر ہوگا، کوئی مجدد فقہ ہوگا، وغیرہ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں  ایک تاریخی عمل کا ذکر ہے، نہ کہ شخصیت کی فضیلت کا بیان۔

اصل یہ ہے کہ اسلام کے اندر ہمیشہ دعوت کا عمل جاری ہوتا ہے۔ اس دعوتی عمل کے دوران امت اور دوسرے گروہوں کے درمیان اختلاط (interaction) ہوتاہے۔ اس اختلاط کے دوران امت محمدی کے افراد دوسروں کا اثر قبول کرتے ہیں۔اس تاثر پذیری کے درمیان ایسا ہوتا ہے کہ امت بار بار اپنی پٹری سے اتر جاتی ہے۔ اس وقت امت کے کچھ اہل علم اٹھتے ہیں، اور امت کی گاڑی کو دوبارہ پٹری پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی عمل کا نام تجدید ہے۔

مثلاً پہلےدور میں  امت پیس فل دعوت کی پٹری سے ہٹ کر جنگ کی پٹری پر چلنے لگی، اس وقت کچھ علما نے امت کو یہ بتایا کہ جنگ اسلام میں  حسن لذاتہ نہیں ہے، وہ حسن لغیرہ ہے۔ اسی طرح جب ماس کنورزن کا زمانہ آیا تو اس کے اثر سے مسلمانوں میں  فرقے بن گئے۔ اس وقت ابن عبد البر نے کتاب لکھی: جامع بیان العلم و فضلہ۔ اس میں  انھوں نے لکھا کہ امت میں  اختلافات توسع (diversity)کی مثالیں ہیں، نہ کہ توحُّد کی مثالیں، وغیرہ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom