عقیدہ اور بین اقوامی معاملات
ہجرت نبوی کے چھٹے سال حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا۔ اسلام میں حدیبیہ کا واقعہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ حدیبیہ کا واقعہ پورے معنوں میں ایک سنت رسول ہے۔ حدیبیہ کے موقعہ پر جو واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ وہ ہے جو بین اقوامی معاملات کے لیے ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔
حدیبیہ کے موقعہ پر رسول اللہ اور قدیم مکہ کے مشرک لیڈروں کے درمیان صلح کی گفت و شنید (negotiation) شروع ہوئی۔ یہ گفت و شنید تقریباً دوہفتہ تک جاری رہی۔ جب اس کی شرطیں طے ہوگئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کاغذ پر صلح نامے کے دستاویز لکھوانا شروع کیا۔ آپ نے علی بن ابی طالب سے کہا:اکْتُبْ یَا عَلِیُّ:ہَذَا مَا صَالَحَ عَلَیْہِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ (اے علی لکھو،یہ وہ شرائط ہیں جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی )۔ سہیل بن عمرو جو اس وقت مشرک قیادت کی نمائندگی کررہے تھے، انھوں نے کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے، آپ وہ لکھیے جس کو ہم مانتے ہیں (اکْتُبْ فِی قَضِیَّتِنَا مَا نَعْرِفُ)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتراض کو مان لیا،اور کہا خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں، لیکن اے علی تم ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹاؤ اور اس کی جگہ لکھو ’’محمد بن عبد اللہ‘‘۔ علی ابن ابی طالب نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔اس کے بعد روایت کے الفاظ یہ ہیں :فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَرِنِی مَکَانَہُ، حَتَّى أَمْحُوَہُ، فَمَحَاہُ، وَکَتَبَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہ (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا، مجھے اس لفظ کی جگہ دکھاؤ، تاکہ میں خود اس کو مٹادوں، پھر رسول اللہ نے خود اپنے ہاتھ سے اس لفظ کو مٹادیا، اس کے بعد علی نے اس جگہ پرمحمد بن عبد اللہ لکھا)۔ تفصیل کے لیے دیکھیے صحیح البخاری(حدیث نمبر 3184)،صحیح مسلم(حدیث نمبر1783-1784)، مسند احمد (حدیث نمبر 16800)، صحیح ابن حبان(حدیث نمبر 4869)، وغیرہ۔
یہ واقعہ دوسری سنتوں کی طرح ایک سنت رسول ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں ڈی لنکنگ (de-linking) کی پالیسی اختیار کی۔ آپ نے عقیدہ اور بین اقوامی معاملے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا۔ آپ نے فریقِ ثانی کے مسلّمہ کے مطابق معاہدہ لکھوایا، نہ کہ خود اپنے عقیدہ کے مطابق۔
اسی طرح کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں عرب کے دو آدمیوں نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ ایک یمامہ کا مسیلمہ بن حبیب، اور دوسرا صنعاء کا اسود بن کعب عنسی۔ مسیلمہ نے 10ہجری میں ایک خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس خط کامضمون یہ تھا: اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے اللہ کے رسول محمد کے نام، سلام علیک، اما بعد، بے شک میں نبوت کے معاملے میں آپ کے ساتھ شریک کیاگیا ہوں، اس لیے نصف زمین ہمارے لیے اور نصف زمین قریش کے لیے۔ مسیلمہ کی طرف سے دو قاصد اس کا یہ خط لے کر مدینہ آئے۔ ان کا نام ابن النواحہ اور ابن اُثال تھا۔ جب مسیلمہ کے دونوں قاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو رسول اللہ نے کہا: کیا تم دونوں بھی وہی کہتےہو جو وہ کہتا ہے۔ دونوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردنیں کٹوادیتا (لَوْلَا أَنَّ الرُّسُلَ لَا تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ أَعْنَاقَکُمَا)۔راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں : فَجَرَتْ سُنَّةً أَنْ لَا یُقْتَلَ الرَّسُولُ۔ یعنی پھر یہ سنت جاری ہوگئی کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیاجائے گا(دیکھیے،سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2761،مسند احمد، حدیث نمبر 3708)۔
ان سننِ رسول سے اسلام کا ایک نہایت اہم اصول معلوم ہوتاہے۔ان سےیہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ اہل ایمان عقیدہ کے معاملے میں اپنے عقیدہ پر قائم رہیں گے۔ لیکن جہاں تک بین اقوامی معاملات کا تعلق ہے، اس میں اہل ایمان بین اقوامی اصولوں (international norms) کو اسی طرح مانیں گے، جس طرح دوسرے لوگ ان کو مانتے ہیں۔ یہ اصول ان تمام معاملات پر قابلِ عمل ہوگا جو بین اقوامی تعلقات پر مبنی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بین اقوامی معاملات میں بین اقوامی رواج پر عمل کیا جائے گا۔ ہر زمانہ میں بین اقوامی تعلقات کے لیے کچھ رواج ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانےمیں بھی اس قسم کے بہت سے رواج ہیں۔ اب اقوامِ متحدہ نے ان کو زیادہ منظم صورت دے دی ہے۔ اس قسم کے تمام رواج مسلم ملکوں میں بھی اسی طرح قابلِ احترام ہوں گے، جس طرح غیر مسلم ملکوں میں ان کو قابلِ احترام سمجھا جاتاہے۔ البتہ اگر اس قسم کے معاملات میں کوئی ایسی چیز یا رواج پایا جائے، جو صراحةً حرام ہو۔ مثلاً بین اقوامی میٹنگوں میں شراب پیش کرنا، تو اس مخصوص جز کی حد تک اس کی پیروی نہیں کی جائے گی۔
بیسویں صدی کے وسط میں اقوامِ متحدہ (United Nations) کی تشکیل ہوئی۔ تمام قوموں نے اس تنظیم کی ممبر شپ قبول کی۔ اس تنظیم کے تحت10 دسمبر 1948 کو ایک منشور تمام قوموں کے اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔ جس کا ٹائٹل یہ تھا— دی یونیورسل ڈکلریشن آف ہیومن رائٹس:
The Universal Declaration of Human Rights (UDHR)
اب یہی منشور تمام قوموں کے اوپر نافذ ہوگا۔ اس معاملے میں کسی ملک کے لیے اپنی الگ پالیسی بنانے کا جواز نہیں۔یہ منشور مسلم ملکوں کے لیے بھی اسی طرح قابلِ عمل ہے، جس طرح وہ غیر مسلم ملکوں کے لیے قابلِ عمل ہے۔
انھیں معاملات میں سے ایک معاملہ وہ ہے، جس کو اقلیاتی حقوق (minority rights) کہا جاتا ہے۔ مسلم ملکوں میں غیر مسلم لوگ ایک مذہبی اقلیت کے طور پر آباد ہیں۔ اسی طرح غیر مسلم ملکوں میں مسلمان ایک مذہبی اقلیت کے طور پر رہتے ہیں۔ ان دونوں معاملات میں یکساں طور پر بین اقوامی اصول کی بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا۔
مروجہ مسلم فقہ میں اس معاملے میں ذمی کا تصور پایا جاتا ہے۔ ذمی کا مطلب ہے پروٹکٹڈ کمیونٹی (protected community)،یعنی مسلم ملکوں میں رہنے والی غیر مسلم اقلیت۔ موجودہ فقہ کے مطابق، اس ذمہ (protection) کے عوض ذمی لوگوں کو ایک مخصوص ٹیکس (جزیہ)ادا کرنا ہوتا ہے۔ ذمی کے تصور کو اسلامی عقیدہ کی طرح ایک ابدی تصور سمجھا جاتا ہے، مگر یہ درست نہیں۔
موجودہ زمانے میں شہریت (citizenship) کا جو تصور ہے۔ اس کے مطابق، جدید ذہن کے لیے ذمی کا تصور بالکل ناقابل قبول ہے۔ خود مسلمان خواہ ذمی کے تصورکو کتنا ہی زیادہ اعلی تصور بتائیں، وہ جدید ذہن کے لیے ایک توہین آمیز اصطلاح ہے۔ ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم ملک میں رہنے والے غیر مسلم کا جو مقام ہے وہ ثانوی درجے کے شہری (second class citizen) کا مقام ہے۔ جدید ذہن کے نزدیک اگرچہ پیغمبر اسلام نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر مساوات انسانی کا اعلان کیا۔ لیکن جہاں تک مسلم ریاست کا تعلق ہے، اس کے اندر غیرمسلموں کو مساوی درجہ حاصل نہیں۔ ان کے لیے صرف یہ چوائس ہے کہ وہ یاتو مسلم ریاست میں ثانوی درجے کی شہری بن کر رہیں یا ریاست کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اسلام کا اصول وہی ہوگا، جو عالمی قانون کے مطابق، تمام قوموں کا اصول ہے۔ اس کی اصل خود دورِ اول میں موجود ہے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ پہنچے، تو آپ نے وہاں کے لوگوں سے ایک معاہدہ کیا۔اس کو اسلام کی تاریخ میں صحیفۃ المدینہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں یہود کے تعلق سےیہ الفاظ ہیں :وَإِنَّ یَہُودَ ... أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ، لِلْیَہُودِ دِینُہُمْ، وَلِلْمُسْلِمَیْنِ دِینُہُم(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ503)۔ یعنی بیشک یہود...،مومنین کے ساتھ، ایک امت ہیں۔ یہود کے لیے ان کا دین ہے، اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نئےشہری انتظام کے تحت دونوں کادرجہ یکساں ہوگا۔ گویا کہ یہ عین وہی چیز ہےجس کو موجودہ زمانے میں یکساں شہریت (equal citizenship) کہا جاتا ہے۔
مسلم فقہ کا ایک مسلم اصول یہ ہے:الأحکامُ تتغیَّرُ بتغیُّرِ الزَّمانِ والمکانِ(تیسیر علم الفقہ للعنزی)۔ یعنی زمان و مکان کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں۔ اس اصول کے انطباق کی مثالیں ماضی میں بھی ہیں اور حال میں بھی۔ماضی میں اس کی مثال بنی قریظہ کے لیے سفر کا واقعہ ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 946)۔
حال کی نسبت سے اس اصول کے انطباق کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن میں ہے کہ حج کے لیے مکہ آنے والے اونٹ پر سفر کرکے آئیں گے(الحج، 22:27)۔مگر آج تمام مسلمان، علماء اور غیر علماء ہوائی جہاز سے سفر کرکے مکہ پہنچتے ہیں۔ اسی طرح قرآن میں مسلم حکومت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ قوت کے لیے خیل (cavalry) فراہم کرو(الانفال، 8:60)۔ لیکن آج مسلم حکومتیں جدید اسلحہ فراہم کرتی ہیں، وغیرہ۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ ضرورت ہے کہ عقیدہ کے سوابقیہ معاملات میں بھی حسب ضرورت اس کو اختیار کیا جائے۔
اسلامی احکام کے دو حصےہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق الدین (الشوری، 42:13)سے ہے۔ اور اس کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کا تعلق شریعت (المائدہ، 5:48) سے ہے۔ الدین کا حصہ ابدی ہے۔ اس میں کسی تبدیلی کی اجازت نہیں۔ لیکن شریعت کا حصہ ابدی نہیں، وہ حالات کے مطابق بدلا جاسکتاہے۔ یہ تبدیلی اجتہاد کی شرطوں کے مطابق کی جائے گی۔
- دنیا میں ہر آدمی کے لیے کوئی نہ کوئی نقصان مقدر ہے۔ دانش مند وہ ہے، جو نقصان کو خدا کا فیصلہ سمجھ کر اس پر راضی ہوجائے۔
- پرامن جدو جہد کا نام جدو جہد ہے، متشددانہ جدو جہد سرے سے کوئی جدو جہد ہی نہیں۔
- دشمن سے مقابلہ کرنے کی سب سے زیادہ کامیاب تدبیر یہ ہے کہ دشمن کو اپنا دوست بنالیا جائے۔
- دوسروں کو دوست بنانے کی سب سے زیادہ آسان تدبیر یہ ہے کہ آپ دوسروں سے نفرت کرنا چھوڑ دیجیے۔
- آپ دوسروں کی ضرورت بن جائیں، تو آپ کو دوسروں سے شکایت نہ ہوگی۔