آزمائش کس لیے

قرآن میں  بتایا گیاہے کہ اہل ایمان کو آزمائش پیش آئی۔ سخت آزمائش کے بعد وہ جنت کےانعام کے لیے منتخب کیے گئے۔ یہ حقیقت قرآن کی دو آیتوں کے مطالعےسے معلوم ہوتی ہے۔ ان میں  سے ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں  داخل ہوجاؤ گے، حالاں کہ ابھی تم پر وہ حالات گزرے ہی نہیں جو تمہارے اگلوں پر گزرے تھے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ یاد رکھو، اللہ کی مدد قریب ہے۔ (2:214)

اس سلسلے میں  دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے: یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے، اور وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، تو ان کو ہماری مدد آپہنچی۔ پس نجات ملی جس کو ہم نے چاہا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔ (12:110)

دعوت الی اللہ کا مشن جنت کی طرف سفر کا مشن ہے۔ یہ سفر مومن کی تربیت کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین کو یہ مطلوب ہے کہ اللہ نے اس کے لیے جو نعمت سے بھری کائنات بنائی ہے،اس کو وہ دریافت کرے۔ وہ ایمان کے اعتبار سےسیلف ڈسکوری (self discovery) کی سطح پر کھڑا ہو۔ یہ سیلف ڈسکوری جنت کی قیمت ہے۔

جنت کا یہ سفر سخت امتحان کے مراحل سے گزرتا ہے۔ ان سخت مراحل سے گزرے بغیر انسان کے اندر وہ شخصیت تیار نہیں ہوتی، جس کو قرآن میں  حسنِ رفاقت کی صفت بتایا گیا ہے۔ یہی وہ صفت ہے، جو کسی کو جنت کا مستحق بناتی ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں  ان الفاظ میں  آئی ہے: وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔

اصل یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کا مقصدصرف ایک ہے، اور وہ عبادت گزاری ہے (الذاریات، 51:56)۔ عبادت کی حقیقت کیا ہے، اس کو راقم الحروف نے اپنی کتاب الاسلام میں  ان الفاظ میں  لکھا ہے:عبادت کا اصل مطلب خدا کے آگے پستی اور عاجزی اختیار کرنا ہے۔ خدا کی عبادت کرنا، خدا کے آگے اپنے آپ کو انتہائی حد تک بچھا دینا ہے۔ پھر عبادت کا یہ عمل جس ہستی کے آگے ہوتاہے، وہ چوں کہ کوئی ظالم و جابر ہستی نہیں، بلکہ انتہائی حد تک شفیق ہستی ہے، اور ہمارے اوپر اس کے بے پایاں احسانات ہیں، اس لیے اظہارِ عجز کے اندر لازمی طور پر محبت کی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ بندے کا خدا سے تعلق اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک انتہائی محبوب ہستی سے عجز کا تعلق ہے۔ عین اس وقت جب بندہ شدتِ خوف سے کانپ رہا ہوتا ہے، جب خدا کے تصور سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں، اس وقت بھی اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ اس کے بہترین جذباتِ محبت اپنے رب کے لیے وقف ہوتے ہیں، وہ انتہائی اشتیاق کے ساتھ خدا کی طرف لپک رہا ہوتا ہے۔ وہ ایک درد انگیز محبت کی اعلی ترین کیفیت میں  اپنے آپ کو لپٹا ہواپاتا ہے۔ خدا کے سامنے عاجزی اختیار کرنا، بلاشبہ اس سے انتہائی خوف کی بنا پر ہوتا ہے، مگر یہ خوف کوئی ایسی چیز نہیں، جو کسی ڈراؤنی شئے کو دیکھ کر آدمی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔یہ انتہائی امید اور انتہائی اندیشہ کی ایسی ملی جلی کیفیت ہے، جس میں  بندہ کبھی یہ طے نہیں کرپاتا کہ دونوں میں  سے کس کو فوقیت دے۔ یہ محبت اور خوف کا ایک ایسا مقام ہے، جس میں  آدمی جس سے ڈرتا ہے، اسی کی طرف بھاگتا ہے، جس سے چھننے کا خطرہ محسوس کرتا ہے، اسی سے پانے کی امید رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا اضطراب ہے، جو سراپا اطمینان ہے، اور ایسا اطمینان ہے، جو سراپا اضطراب ہے۔ (الاسلام، صفحہ 7)

حقیقت یہ ہے کہ ایمان ایک انوکھی آزمائش کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں  انسان کو ایک ایسے امتحان سے گزرنا ہوتا ہے، جو بیک وقت امید اور خوف کے دوطرفہ جذبات کے درمیان سے گزرتا ہے۔آدمی کو ہر لمحہ یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا سفر امید کا سفر ہے، اسی کے ساتھ ہر لمحہ اس کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اس کو کچھ نہیں معلوم کہ بالآخر کیا ہونے والا ہے۔ یہ امید اور خوف کی دو طرفہ کیفیت کے درمیان گزرنے والا سفر ہے۔ اس سفرمیں  ہر وقت انسان امید میں  بھی ہوتا ہے، اور اسی کے ساتھ خوف میں  بھی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom