رسول اللہ کی سنت

پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک خطاب کیا تھا۔ اس خطاب میں  مختلف باتوں کے علاوہ امت مسلمہ کو یہ رہنمائی بھی دی تھی: یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا کِتَابَ اللَّہِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 318)۔ یعنی اے لوگو، میں  نےتمھارے درمیان چھوڑا ہے، جس کو تم پکڑے رہوگے، تو تم ہرگز گمراہ نہ بنوگے، کبھی بھی— یہ اللہ کی کتاب، اور اس کی نبی کی سنت ہے۔

یہ صرف ایک حدیث نہیں ہے، بلکہ یہ رسول اللہ کی ایک قابلِ اعادہ (repeatable) سنت کا بیان ہے۔ چنانچہ رسول اللہ کے بعد اس سنت پرعمل جاری ہوگیا۔ رسول اللہ کے بعد امت پوری طرح اس سنت کے مطابق سرگرمِ عمل ہوگئی۔ سیرت لکھی گئی، مسجد بنے، مدرسے بنے، وغیرہ۔ یہاں تک کہ امتِ محمدی ایک زندہ امت بن گئی۔

رسول اللہ نے ایک قائم شدہ امت چھوڑی ہے، اس کے لیے مقدر ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ قیامت تک جاری رہے۔امت رسول اللہ کی مستند نمائندہ بن کر اس کے مشن کو لے کر قیامت تک چلتی رہے۔ رسول اللہ کے مشن کو لے کر چلنے کا مطلب کیاہے۔ یہ ہے دعوت الی اللہ کے مشن کو قیامت تک جاری رکھنا۔ امت محمدی کی حیثیت داعی گروہ کی ہے، اور دوسری قوموں کی حیثیت مدعو اقوام کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان تعلق داعی مدعو کا تعلق ہے، حریف اور رقیب کا تعلق نہیں۔

یہ تعلق عملاً ایک دوسرے کے درمیان خیرخواہی کا تعلق ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ داعی مدعو کے تعلق کو ہمیشہ زندہ رکھا جائے۔ اس کو کبھی حریف اور رقیب کا تعلق نہ بننے دیا جائے۔ امت کو ایک طرف زندہ حالت میں  قائم رکھنا ہے، اور دوسری طرف برابر اس تعلق کو اپڈیٹ (update) کرتے رہنا ہے، یعنی بدلے ہوئے حالات کے مطابق، اس کی افادیت کو زندہ رکھنا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom