زلزلے کا سبق
قدرتی آفتوں میں سب سے بڑی آفت زلزلہ ہے۔ قدیم ترین زمانے سے انسان زلزلوں کا شکار ہوتا رہا ہے۔ زلزلے میں جو انسانی موتیں واقع ہوتی ہیں، ان کا سب سے بڑا سبب مکانوں کا گرنا ہے۔ جب زلزلے کا جھٹکا آتا ہے تو مکانات اچانک گر پڑتے ہیں اور چھوٹے بڑے سب اس کے نیچے دب کر مر جاتے ہیں۔ انسان نے اپنے تجربات میں یہ معلوم کیا کہ جو مکان جتنا زیادہ مضبوط ہو، اتنی ہی آسانی سے وہ زمیں بوس ہو جاتا ہے اور بھیانک حادثات کا سبب بنتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زلزلے سے پیدا ہونے والے نقصانات سے بچنے کی تدبیر مکانات کی "مضبوطی"نہیں بلکہ اس کی "کمزوری" ہے۔ مضبوط مکان بے لچک ہوتا ہے، وہ زلزلے کے مقابلے میں مستحکم طور پر کھڑا رہنا چاہتا ہے۔ چوں کہ شدید زلزلے کا جھٹکا ہر مضبوط مکان سے بہت زیادہ ہوتا ہے، اس لیے مکان کی مضبوطی اس کے لیے الٹی پڑتی ہے۔ وہ پورا کا پورا دھڑام سے گر جاتا ہے۔
اس کے برعکس مکان اگر زیادہ مضبوط نہ ہو بلکہ لچک دار ہو تو اس کے اندر زلزلے کے جھٹکے کو سہارنے کی طاقت آجاتی ہے۔ زلزلہ جب جھٹکا دیتا ہے تو وہ خود بھی ہلنے لگتا ہے۔ اس طرح مکان کا ہلنا اس کو گرنے سے بچالیتا ہے۔ زلزلہ اگر زمین کو تلپٹ نہ کرے، بلکہ صرف ہلائے، تو ایسے مکانات اکثر محفوظ رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ ان مکانوں کے باشندے بھی۔
اس تجربے کی روشنی میں ارتھ کوئیک انجینیرنگ وجود میں آئی ہے۔ اس انجینیرنگ کے مطابق، زلزلے کے علاقوں میں ایسے مکانات بنائے جاتے ہیں جن کا ڈھانچہ فلوٹنگ فاؤنڈیشن (floating foundation)کے اصول پر بنایا جاتا ہے۔ چناں چہ جب زلزلے کا جھٹکا آتا ہے تو ایسا مکان ہل کر رہ جاتا ہے، وہ منہدم نہیں ہوتا۔ ۱۹۸۹ میں سان فرانسکو میں شدید زلزلہ آیا۔ مگر وہاں صرف ۲۷۵ موتیں ہوئیں۔ جب کہ جون ۱۹۹۰ میں اسی قسم کا زلزلہ شمالی ایران میں آیا تو ۶۰ ہزار آدمی مر گئے۔ اس فرق کا سبب یہ تھا کہ سان فرانسسکو میں لچک دار مکانات بنے ہوئے تھے اور ایران میں اینٹ اور سمنٹ کے مضبوط مکانات۔
یہ قدرت کا ایک سبق ہے جو بتا تا ہے کہ موجودہ حادثات کی دنیا میں بچنے کی تدبیر کیا ہے۔ وہ تدبیر یہ ہے کہ آدمی اس دنیا میں اکڑ کے ساتھ نہ رہے بلکہ تواضع کے ساتھ رہے۔