سبب اپنے اندر
قرآن میں جس طرح ذکر و عبادت کے احکام ہیں، اسی طرح قرآن میں اجتماعی امور کی بابت بھی کھلے بیانات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے جب ہم موجودہ معاملے میں قرآن کی رہنمائی معلوم کرنا چاہتے ہیں تو قرآن نہایت واضح طور پر یہ بتاتا ہوا نظر آتا ہے کہ اس دنیا میں جو افتاد بھی کسی کے ساتھ پیش آتی ہے وہ حقیقۃً ایک کے اوپر دوسرے کی زیادتی نہیں ہوتی، بلکہ وہ کمزور فریق کی کمزوری کی سزا ہوتی ہے جو طاقت ور فریق کی طرف سے اسے بھگتنی پڑتی ہے۔ آخرت میں ہر ایک کا جو حساب ہوگا،وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ مگر دنیا کے اعتبار سے جو صورت حال ہے وہ یہی ہے۔
قرآن (الشوری: ۳۰) میں واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ جو مصیبت بھی تمہارے اوپر پڑتی ہے وہ خود تمہارے اپنے کیے کا نتیجہ ہوتی ہے (وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم)
ایک مرفوع حدیث کے مطابق، رسوں اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے علی، جو بھی بیماری یا سزا یا مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے (یا علی، ما أصابكم من مرض أو عقوبة أو بلاء في الدنيا فبما كسبت أيديكم) الجامع لاحکام القرآن ۳۰/۱۶
قرآن میں اس اصول کا انطباق سب سے پہلے خود صحابہ کرام کی جماعت پر کیا جا چکا ہے یہ انطباق بعد کے مسلمانوں کے لیے نہایت سبق آموز ہے۔
ایک مثال غزوۂ احد (۳ ھ) کی ہے۔ یہ جنگ یک طرفہ طور پر مخالفین اسلام کی سازش اور ان کی جارحیت کے نتیجے میں پیش آئی تھی۔ اس جنگ میں ابتداءً مسلمان کامیاب ہو گئے۔ مگر آخر میں ان کوشکست ہوئی۔ قرآن میں اس پر تبصرہ کیا گیا تو مخالفین اسلام کی کھلی زیادتیوں کے باوجود ہارنے کی ذمہ داری خود مسلمانوں کے اوپر ڈال دی گئی۔ کہا گیا کہ اس جنگ میں شکست کا سبب یہ تھا کہ تم نےکمزوری دکھائی تم نے معاملے میں نزاع کیا اور تم نے رسول کی ہدایت کی خلاف ورزی کی (حتی اذا فشلتم وتنازعتم في الأمر وعصيتم من بعد ما أراكم ما تحبون) آل عمران: ۱۵۲
دوسری مثال غزوۂ حنین (۸ ھ)کی ہے اس جنگ میں بھی تمام تر زیادتی مخالفین اسلام کی تھی۔ انھوں نے غدار انہ طور پر مسلمانوں کی جماعت پر حملہ کر دیا تھا۔ اس جنگ میں ابتداءً مسلمانوں کو شکست ہوگئی۔ وہ میدان جنگ سے بھاگنے لگے۔ تاہم بعد کو وہ پھر سنبھلے اور دوبارہ جنگ کی۔ دوبارہ جنگ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی عطا فرمائی۔
اس جنگ میں مخالفین نے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچایا تھا۔ اس پر قرآن میں تبصرہ کیا گیا۔ اس تبصرے میں بھی مخالفین کی کھلی ہوئی زیادتی کے باوجود خود مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی۔ فرمایا کہ حنین میں ابتداءً جو شکست اور نقصان پیش آیا اس کی وجہ تمہاری یہ کمزوری تھی کہ تم کو اپنی کثرت تعداد پر ناز ہو گیا (ویوم حنين إذ أعجبتکم کثرتكم فلم تغن عنكم شيئا) التوبہ: ۲۵
قرآن و حدیث کے ان بیانات کے مطابق، صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب ایک فریق دوسرے فریق کی زیادتی کا شکار ہو تو زیادتی کا شکار ہونے والا فریق شکایت اور احتجاج میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ اس کے برعکس اس کو چاہیے کہ وہ اپنا ذاتی احتساب کرنا شروع کر دے۔
وہ دوسروں کے ظلم کا اعلان کرنے کے بجائے اپنی کوتاہیوں کو تلاش کرے۔ وہ دوسروں سے مطالبہ کرنے کے بجائے خود اپنی حالت کی اصلاح کی طرف توجہ دے۔ کیوں کہ جو کچھ پیش آیا ہے، اس کا سبب خود اس کے اپنے اندر ہے نہ کہ اس کے باہر۔
جس مسئلے کا سبب آدمی کے اپنے اندر ہو، اس کے بارے میں دوسروں کے خلاف شورو غل کرنا محض اپنا وقت ضائع کرنا ہے۔ ایسی کوششوں سے اس کو کچھ ملنے والا نہیں۔ اس کے معاملے کی اصلاح صرف اپنی کمیوں کو دور کرنے سے ہو سکتی ہے، اور پہلی فرصت میں اس کو اسی اصل کام میں لگ جانا چاہیے۔