دعوتی عمل
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر جتنی بھی اصلاحی تحریکیں اٹھیں، ان سب نے اپنی کوششوں کا مرکز صرف مسلمانوں کو بنایا۔ یہ ایک بنیادی غلطی تھی جس کی بنا پر غیر معمولی کوششوں کے باوجود ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ کیوں کہ موجودہ مسلمان اپنے زوال کے نتیجے میں ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح بن چکے تھے۔
ٹھہرے ہوئے پانی میں کثافت آجاتی ہے۔ جب کہ رواں پانی ہمیشہ اپنی تازگی کو باقی رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں نیا پانی شامل ہونا بند ہو جاتا ہے۔ یہی حال موجودہ زمانے کے مسلمانوں کاہے۔ وہ اب ٹھہرےہوئے پانی کی مانند ہو چکے ہیں۔ اس لیے اب صرف مسلمانوں کے اندر اصلاحی کام کرنے سےان کے اندر حقیقی زندگی نہیں آسکتی۔ اس کے لیے نئے خون (New blood) کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ان کے پرانے پانی میں نئے پانی کا چشمہ شامل کیا جائے۔
مسلمانوں کے ٹھہرے ہوئے پانی کو رواں پانی بنانے کا طریقہ صرف ایک ہے۔ اور وہ دعوت ہے۔ دعوت کے ذریعے دوسری قوموں کے لوگ آکر مسلمانوں کے دھارے میں ملتے ہیں۔ اس طرح پرانے پانی میں نیا پانی شامل ہو کر اس کو تازہ اور پر کیفیت بنا دیتا ہے۔
یہ اہم فائدہ دعوت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ مسلمان دعوت کا کام چھوڑ کر ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہو جاتے ہیں۔ اور دعوت کے کام میں مشغول ہو کر اپنے پانی کو رواں پانی بنا لیتے ہیں۔ دعوت کا کام خدائی فریضے کی ادائیگی ہے اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کو زندہ گروہ کی حیثیت سے قائم رکھنے کی ضمانت بھی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کرنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کی اصلاح کے بعد ہی بیرونی دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے۔ مگر نقل اور عقل دونوں اعتبار سے یہ ایک بے بنیاد نظریہ ہے(ملاحظہ ہو الر سالہ نومبر ۱۹۸۹، صفحہ ۲۷)
مزید یہ کہ موجودہ حالات میں یہ بالکل ناممکن ہے۔ مسلمان اس وقت اپنے زوال کے دور میں ہیں۔ اس لیے خود ان کی اصلاح کے لیے بھی صرف داخلی کوشش کافی نہیں ہو سکتی۔ مسلمانوں کے پرانے خون میں جب تک نیا خون بڑی مقدار میں شامل نہ کیا جائے ان کے اندر کوئی گہری تبدیلی لاناممکن نہیں جو لوگ اس راز کو نہ جانیں وہ انسانی زندگی کی الف،ب بھی نہیں جانتے۔