یہ فرق کیوں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم مکہ میں لوگوں کوحق کا پیغام دینا شروع کیا تو لوگوں کی طرف سے نہایت سخت رد عمل ظاہر کیا گیا۔ اس وقت آپ کو یک طرفہ طور پر صبر و اعراض کا حکم دیا گیا۔ چناں چہ مکہ کے ۱۳ سال تک آپ نے مکمل طور پر اس خدائی ہدایت پر عمل فرمایا۔ آپ ہر قسم کی قولی اور عملی تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوئے انھیں اپنی پیغمبرانہ دعوت پہنچاتے رہے۔
دوسری طرف خود پیغمبر اسلام کے حالات بتاتے ہیں کہ آپ نے ان اسلاف پر سخت تنقیدیں کیں جن کو عرب کے لوگ اپنا مقتدا اور اپنا مذہبی رہنما سمجھتے تھے۔ مشرکین مکہ اس پر بہت بگڑتے تھے۔ ان کے سردار جب آپ کے چچا ابو طالب کے پاس جمع ہوئے تو ان سرداروں نے ان سے آپ کی جو شکایت کی وہ یہ تھی :
فقالوا يا أبا طالب، إن ابن أخيك قدسبّ آلهتنا وعاب ديننا وَسَفّه أحلامنا و ضلل آباءنا (سیرۃ ابن ہشام ۲۷۷/۱)
انھوں نے کہا کہ اے ابو طالب، آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو گالی دی اور ہمارے دین کو عیب لگایا اور ہماری عقلوں کو بیوقوف بتایا اور ہمارے قومی اکابر کو گمراہ ٹھہرایا۔
سیرتِ رسول ﷺکا یہ واقعہ بتاتا ہے کہ دو باتیں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ ایک ہے مدعو کی زیادتی اور اشتعال انگیزی کا معاملہ۔ اس معاملے میں داعی کو صبر اور اعراض کا حکم دیا گیا ہے۔ داعی کو یک طرفہ طور پرمدعو کی زیادتیوں پر صبر کرنا ہے۔ داعی کے لیے کسی حال میں جائز نہیں کہ وہ مدعو کے مقابلے میں رد عمل کا انداز اختیار کرے۔
دوسرا معاملہ ان اکا بر قوم کا ہے جو مدعو گروہ کے مقتدا اور رہنما بنے ہوئے ہوں۔ جن سے عام لوگ فکری رہنمائی حاصل کرتے ہوں۔ اس دوسرے معاملے میں داعی کو صبر کے بجائے احتساب کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ اس کو ان فکری رہنماؤں کی رہنمائی پر واضح تنقید کر نا ہے تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا پوری طرح واضح ہو جائے۔ داعی کو یہ تنقیدی کام بہر حال کرنا ہے خواہ مدعو کو وہ اتنا زیادہ برا معلوم ہو کہ وہ داعی کے بارے میں یہ کہنے لگے کہ تم ہمارے اکابر کو گالی دیتے ہو، تم ہمارے بڑوں کا سب و شتم کر رہے ہو۔