ایک سفر
طرابلس (لیبیا) میں ۲۴ - ۲۸ ستمبر ۱۹۹۰ کو ایک انٹرنیشنل اسلامی کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کی دعوت کے مطابق ایک سفر ہوا۔ سفر کے کچھ تاثرات یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
۲۲ ستمبر کو صبح ساڑھے تین بجے گھر سے روانگی ہوئی۔ فجر کی نماز دہلی ایئر پورٹ پر پڑھی۔ ایئر پورٹ پر ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ اخوانی مزاج کے تھے۔ اسلامی جہاد پر بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اسلامی جہاد (بمعنی قتال)صرف دفاعی ہے۔ اسلام کا اصل اقدام دعوت ہے نہ کہ قتال۔
انھوں نے کہا کہ ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ البتہ ہمارا کہنا ہے کہ دعوت کی راہ میں جب رکاوٹ ڈالی جائے تو رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے قتال کیا جائے گا۔ میں نے کہا کہ دعوت کی راہ میں رکاوٹ کا نظریہ در اصل موجودہ زمانے کے سیاست پسند مفکرین کا پیدا کر دہ ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک اسلامی دعوت کا مقصد اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ یہ لوگ جب اسلام کو ایک سیاسی نظام کی حیثیت سے نافذ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے حکمراں اس انقلابی مقصد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ چناں چہ وہ ان سے لڑنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں تاکہ رکاوٹ کو دور کر کے اسلامی قانون کی حکومت قائم کریں۔
میں نے کہا کہ اسلامی دعوت کا یہ تصور ہی سرے سے غلط ہے۔ اسلامی دعوت در اصل توحید کا اعلان اور آخرت کا انذار ہے۔ اور اعلان توحید اور انذار آخرت کے کام میں، کم از کم موجودہ زمانے میں کسی رکاوٹ کا سوال ہی نہیں۔ ہندستان میں بائیں چلو (خذ ذات اليسار) کا اصول ہے اور عرب ملکوں میں دائیں چلو (خذ ذات الیمین) کا۔ اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دائیں چلو کا اصول اسلام کا اصول ہے۔ اس لیے میں ہندستان کی سڑکوں پر دائیں چلوں گا تو ایسے شخص کو ہندستان کا نظام ایک رکاوٹ معلوم ہوگا۔ وہ کہے گا کہ ہمیں چاہیے کہ لڑکر اس رکاوٹ کو دور کریں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے۔
بورڈنگ کارڈ لینے کے لیے ایئرلائن کی کھٹر کی پر کھڑا ہوا تو میں لائن میں سب سے پیچھے تھا۔ اچانک اندر سے ایک عرب نوجوان باہر آیا۔ اس نے میرا ٹکٹ لیا اور اندر جا کر ضروری کارروائی کی اور بورڈنگ پاس لا کر مجھے دے دیا۔ اس کے ساتھ اس نے ایک خوب صورت چھپا ہوا کارڈ مزید دیا جو ضیافت کے لیے تھا۔ اس پر لکھا ہوا تھا :
Royal Jordanian is pleased to invite you to avail the facility of Baurya Lounge in Departure Hall; Thank You.
اس تجربے کے بعد دل بھر آیا۔ میں نے کہا کہ کاش قیامت کے دن بھی ایسا ہی ہو کہ میں عجز اور دل فگاری کی تصویر بنا ہوا سب سے پیچھے کھڑا ہوں اور اللہ تعالیٰ فرشتہ کو بھیج دیں کہ میرے اس عاجز بندے کے پاس جاؤ اور اس کے داخلۂ رحمت کا کارڈ خود اس کے پاس پہنچا دو۔
وہلی ائیر پورٹ کے اندر میں امیگریشن (Immigration) کی کھڑکی پر کھڑا تھا۔ میرے قریب کی دوسری کھڑکی پر شور سنائی دیا۔ میں نے دیکھا کہ کھڑکی پر بیٹھے ہوئے پولیس کے آدمی سے دو مسافروں کا جھگڑا ہور ہا تھا۔ دوسری طرف میری کھڑکی پر بھی ایک ورد ی پوش آدمی تھا۔ مگر وہ نہایت شریفانہ انداز میں مسافروں کا کام انجام دے رہا تھا۔ میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہا :سرب جیت سنگھ۔
میں نے سوچا کہ جولوگ آدمیوں کو فرقوں اور گروہوں کی صورت میں دیکھتے ہیں وہ کتنی بڑی غلطی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے سطحی قائدین ہر فساد کے موقع پر آنکھ بن کر کے" پولیس" کی مذمت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ گویا کہ ہر وہ شخص جس نے پولیس کی وردی پہن لی، وہ ایک ظالم گروہ کا فرد بن گیا۔ رائے قائم کرنے کا یہ طریقہ حد درجہ ظالمانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک انسان اور دوسرے انسان میں فرق ہوتا ہے۔ انسانوں کو ان کے کردار کے اعتبار سے بانٹنا چاہیے نہ کہ فرقوں اور گروہوں کے اعتبار سے۔
دہلی سے اردن ایئرویز کی فلائٹ نمبر ۱۹۳ کے ذریعے روانگی ہوئی۔ راستے میں ائیر لائنز کا انگریزی میگزین رائل ونگ Royal Wings)) پڑھا۔ حسب معمول اس میں ہوٹلوں کے شاند ار با تصویر اشتہارات تھے۔ عنوان تھا :
The Finest collection of Hotels in the Middle East.
سرسبز و شاداب ماحول میں خوب صورت اور شاندار عمارتیں دیکھنے میں بہت پرکشش معلوم ہوئیں۔ میں نے سوچا کہ میں بار بار اسی قسم کے ہوٹلوں میں ٹھہرا ہوں۔ مگر جب وہاں ٹھہرتا ہوں تو وہاں کا قیام اور وہاں کی زندگی میں میرے لیے کوئی کشش نہیں ہوتی۔
خیال آیا کہ ان تصویروں کے پرکشش ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان میں ہوٹلوں کا ایک پہلو حذف ہو گیا ہے۔ وہ ان کا تعب اور حزن ہے۔ قرآن میں اہل جنت کی زبان سے کہلایا گیا ہے کہ اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے حزن کو ختم کر دیا (أذهب عنا الحزن) دنیا کایہ تجربہ آخرت کے معاملے کا ایک تعارف ہے۔ دنیا میں حزن تصویر میں حذف ہو جاتا ہے مگر حقیقت میں وہ موجود رہتا ہے۔ آخرت میں خدا اپنے کمال قدرت سے خود حقیقت کے اندر سے حزن کو حذف کر دے گا۔ اس کے بعد خدا کی دنیا ابدی خوشیوں کی لازوال آرام گاہ بن جائے گی۔
۲۲ ستمبر کو دوپہر بعد کا وقت تھا۔ باہر سورج کی روشنی پوری طرح فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ ہمارا جہاز اردن کے صحرائی حصے کے اوپر ۵۳۵ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ رہا تھا۔ کھڑکی سے باہر کی طرف نظر ڈالی تو نیچے خالص صحرائی منظر تھا۔ دور دور تک کہیں کوئی آبادی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ ہر طرف غیر آبا در تیلے میدانوں کا منظر تھا۔
اس وقت میرے ہاتھ میں اردن ایر لائنز کا عربی مجلہ "الأ جنحہ" تھا۔ اس کے ایک مضمون کا عنوان تھا :المياه في الوطن العربي و الأردن اس میں عرب دنیا کے آبشار (الشّلّالات) دکھائے گئے تھے۔ آرٹ پیپر پر چھپی ہوئی رنگیں تصویروں میں نظر آرہا تھا کہ پہاڑوں کے اوپر سے پانی کے بڑے بڑے دھارے آبشار بن کر نیچے گر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ خدا کی قدرت بھی کیسی عجیب ہے۔ زمین پر ایک طرف خشک صحراؤں میں ریت اڑ رہی ہے اور دوسری طرف اسی زمین میں پانی کے دریا بہہ رہے ہیں۔
اس بار لیبیا کا سفر ہنگامی حالات میں ہوا۔ ۲ اگست ۱۹۹۰ کو کویت کے خلاف عراق کے فوجی اقدام نے یہ صورت حال پیدا کر دی ہے کہ ہر طرف جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ "لیبیا " کا لفظ جدید دور کی جنگی طاقت کو بھی بتاتا ہے اور اس کی کمزوری کو بھی۔
امریکی جنرل آجکل صدام حسین کو بم کانشانہ بنانے کی بات کر رہے ہیں (ہندستان ٹائمس ۱۷ ستمبر ۱۹۹۰) ۱۹۸۶ میں اسی طرح امریکی بمباروں نے لیبی حکمراں کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ واقعہ ایک طرف بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں کس طرح یہ ممکن ہو گیا ہے کہ ایک فوجی افسر فضائی راستے سے دشمن کے ملک میں داخل ہو جائے۔ اور وہاں اپنے مطلوبہ نشانہ پر بم گرا کر محفوظ طور پر واپس چلا آئے۔ اسی کے ساتھ یہی واقعہ انسان کی محدودیت کو بھی بتا رہا ہے۔ یعنی ساری مشینی ترقیوں کے باوجود اب بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ نتیجے کو صد فی صد اپنے حق میں یقینی بنا سکے۔
ٹائم (۱۰ستمبر ۱۹۹۰) نے اسی بات کو ان لفظوں میں کہا تھا کہ امریکہ کے فوجی جنرل صدام حسین کے خلاف جراحی ضرب کی بات کر رہے ہیں لیکن جراحی ضرب عام طور پر غلط نشانوں پر مارتی ہے، جیسا کہ ۱۹۸۶ میں لیبیا کے خلاف حملہ میں ہوا۔ اس حملہ کا نشانہ معمر قذافی تھے۔مگرعملاً جو ہوا وہ یہ کہ فرانسیسی سفارت خانہ تباہ ہو گیا اور قذافی کی لڑکی مرگئی:
Generals like to talk of "surgical strikes", but surgical strikes usually hit the wrong targets - like the misguided air raid on Libya in 1986 that wrecked the French embassy and killed Colonel Gaddafi's daughter (p. 56).
دہلی سے روانہ ہو کر ہمارا جہاز پاکستان، افغانستان، ایران اور عراق کے اوپر سے اڑتا ہوا دو پہر بعد عمان کے ایر پورٹ پر اتر گیا۔ اس سے پہلے میں عمان سے دو بار گزر چکا ہوں، مگر اس بار عمان ایر پورٹ پر کچھ بھیٹر کا سا منظر دکھائی دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہاں بہت کم آدمی نظر آتے تھے۔ خلیج کے موجودہ حالات غالباً اس کا سبب ہیں۔
عمان کا لفظ آجکل خبروں میں بہت زیادہ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ۲ اگست کو کویت پر عراق کے حملے کے بعد جب لوگ بھاگنا شروع ہوئے تو ان کے لیے اردن کی سرحد سب سے زیادہ کھلی ہوئی تھی۔ چنا نچہ بہت بڑی تعداد میں لوگ بھاگ بھاگ کر اردن پہنچ گئے۔
حملے کے وقت تقریباً ۸۰ ہزار ہندستانی کویت میں تھے۔ ان کی بڑی تعداد بھاگ کر اردن میں داخل ہو گئی۔ یہاں سے انہیں بسوں کے ذریعے عمان لایا گیا۔ تازہ اطلاع کے مطابق، بوقتِ تحریر تقریباً دس ہزار ہندستانی عمان میں رہ گئے ہیں۔ بقیہ کو عمان سے بمبئی پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ لوگ عمان سے ۱۱۰ کیلومیٹر کے فاصلے پر از رق ریفیوجی کیمپ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
اس مقصد کے لیے ایر انڈیا اور اقوام متحدہ کے جہاز مشترکہ طور پر مصروف رہے۔ ابتدا ءً روزانہ دوجہاز عمان سے بمبئی جاتے تھے۔ پھر روزانہ ۱۳ جہاز جانے لگے۔ اب ان کی تعداد روزانہ نو کردی گئی ہے۔ چند دن کے اندر ان شاء اللہ تمام ہندستان اپنے وطن پہنچائے جاچکے ہوں گے۔
عمان سے طرابلس کے لیے اردن ایر لائنز کی فلائٹ نمبر ۱۴۵ کے ذریعے روانگی ہوئی۔ ر استہ میں آج (۲۲ ستمبر) اردن کے دو اخباروں کا مطالعہ کیا۔ ایک عربی روزنامہ" الرای" دوسرا انگریزی روزنامہ (Jordan Times) انگریزی اخبار کے پہلے صفحہ کی پہلی سرخی یہ تھی کہ سعودی عرب نے اردن کو تیل کی سپلائی بند کر دی :
S. Arabia cuts off oil supply to Jordan
ایسا ہونا بالکل فطری ہے۔ کیوں کہ اردن نے کھلم کھلا کویت عراق کے معاملے میں صدام حسین کا ساتھ دیا ہے۔ عربی اخبار کے صفحہ ۱۸ پر چھ چوکھٹوں میں مختلف کمپنیوں اور اداروں کے اعلانات تھے۔ ان اعلانات میں اردن کے ملک حسین کے ساتھ صدام حسین کی تصویرچھپی ہوئی تھی۔ ہر چوکھٹے پر تائیدوولاء(تائید اور دوستی) جیسے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ ان میں صدام حسین کو قائد عربی کے روپ میں دکھایا گیا اور" عہد" کیا گیا تھا کہ ظالم امریکیوں اور صلیبیوں کے خلاف جنگ میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
اخبار میں کویت کے خلاف صدام حسین کی جارحیت کا مطلق کوئی ذکر نہ تھا۔ مختلف انداز میں صرف امریکہ اور اس کے ساتھیوں کے ظلم اور فریب کو نمایاں کیا گیا تھا۔ ایک عراقی فوجی طارق نعیم کا خط (رسالۃ) اپنے مصری فوجی دوست دسوقی ابو المعاطی کے نام نمایاں طور پر چھاپا گیا تھا۔ اس خط میں عراقی فوجی نے مصری فوجی کو شرم دلائی تھی کہ کیا تم ظالموں کی فوج میں شامل ہو کر میرے اوپر گولی مارنا چاہتے ہو۔ حالاں کہ یہ سب ڈاکو ہیں جو سمندر پارسے عربوں کو قتل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ خط کا خاتمہ اس جذ باتی لفظ پر ہوا تھا: فهل تدعهم يفعلون (پھر کیا تم انہیں چھوڑ دو گے کہ وہ جو چاہتے ہیں کریں)
اردن کے اخبار میں اس قسم کی خبروں اور اس قسم کے مضمون کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ انسان بھی کیسا عجیب ہے۔ وہ دوسرے کے ظلم کو بتاتا ہے اور اپنے ظلم کو چھپاتا ہے۔ صدام حسین نے واضح طور پر کویت کے خلاف جارحیت کی ہے۔ مگر اس کی کھلی ہوئی جارحیت کا کوئی ذکر نہیں، سارا شور و غوغا صرف اس بات پر ہے کہ امریکہ اپنی فوجوں کو لے کر خلیج عرب میں کیوں آگیا۔
یہ ایک بد ترین دھاندلی ہے۔ ساری دنیا کے لوگ اسی دھاندلی میں مبتلا ہیں۔ ہندستان کے مسلمانوں میں تمام لکھنے اور بولنے والے اسی دھاندلی کا شکار ہیں۔ یہ ایسا جرم ہے جس کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو ہرگز خدا کی مددملنے والی نہیں۔
ٹائم میگزین کے سائز پر پیرس سے ایک عربی ہفت روزہ "الوطن العربی " کے نام سے نکلتا ہے۔ جہازکے اندر اس کا شمارہ ۷ستمبر، ۱۹۹۰ موجو دتھا۔ اس کا بھی مطالعہ کیا۔ مگر یہ ایک سرسری قسم کا پرچہ تھا۔ اس کی کور اسٹوری تھی : خلیج کا بحران، جنگ یا جنگ نہیں(أزمۃ الخليج حرب أم لا حرب) مضمون میں دونوں پہلوؤں کو واضح کرتے ہوئے بتا یا گیا تھا کہ جنگ ہونے کا امکان بھی اتنا ہی ہے جتنا جنگ نہ ہونے کا۔
میں اگر چہ فرسٹ کلاس میں سفر کر رہا تھا۔ اور فرسٹ کلاس کے مسافروں کو جہاز میں غیر معمولی سہولتیں دی جاتی ہیں۔ مگر میں اپنی وسیع اور آرام دہ سیٹ پر اس طرح بے قرار تھا جیسے مجھے کسی عذاب خانہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ میرا یہی حال ہر سفر میں ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ دوسرے لوگ سفر سے لطف اٹھاتے ہیں۔ آخر میرا مزاج ایساکیوں ہے کہ دنیا کی کوئی راحت میرے لیے خوشی اور سکون کا باعث نہیں بنتی۔
نفسیاتی اعتبار سے اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اپنے مزاج کے اعتبار سے میں ایک معیار پسند (Idealist) آدمی ہوں۔ دنیا کی کوئی چیز، خواہ وہ کتنی ہی اچھی ہو، وہ معیار (آئیڈیل)سے کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کسی بھی چیز سے خواہ بظاہر وہ کتنی ہی اچھی ہو، کبھی مطمن نہیں ہو پاتا۔
میرے اس مزاج نے میرے لیے زندگی کو ایک مسلسل کرب بنا دیا ہے۔ تاہم اس مزاج کا ایک فائدہ مجھے یہ ملاکہ میں اس سطحیت سے بچ گیا جس میں بہت سے لوگ مبتلا ہوئے۔ انھوں نے اپنی کسی کتاب یا اپنے کسی عمل کو " شادم از زندگیٔ خویش کہ کارے کردم" کا درجہ دیا اور کہا کہ قیامت کے دن جب خدا پوچھے گا کہ کیا لائے تو میں اپنی اس کتاب یا اپنے اس عمل کا ہدیہ خدا کی خدمت میں پیش کر دوں گا۔
میری معیار پسندی میرے لیے اس میں مانع ہوگئی کہ میں اپنی کسی کتاب یا اپنے کسی عمل کویہ درجہ دوں کہ وہ خدائے ذو الجلال کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کرنے کے قابل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس قسم کے کسی تصور کو خدا کی تصغیر کے ہم منی سمجھتا ہوں۔
۲۲ ستمبر کو مقامی وقت سے ڈھائی بجے دن میں جہاز طرابلس کے ہوائی اڈہ پر اتر گیا۔ پوری پرواز نہایت ہموار تھی۔ اس کے کیپٹن (قائد الطائرہ) عبد اللہ المدبر تھے۔ عربوں میں اب ٹکنیکل ماہرین کافی تعداد میں پیدا ہو چکے ہیں۔
ایر پورٹ سے شہر آتے ہوئے سڑک پر ایک جگہ یہ کتبہ لکھا ہوا نظر آیا : الوحدة العربية ضرورة حتمیہ (عرب اتحاد ناگزیر ضرورت) اس کو پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ پچھلے پچاس سال سے اس قسم کے الفاظ ہر جگہ بولے اور لکھے جارہے ہیں، مگر عین ان الفاظ کے ہجوم میں عرب اتحاد آج خلیج عرب میں غرق ہوچکا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کلام اتحاد کو واقعہ بننے کے لیے شعورِ اتحاد درکار ہے۔ اور شعور اتحاد ساری مسلم دنیا میں کہیں موجود نہیں۔ لوگ اتحادیوں کے ساتھ متحد ہونا جانتے ہیں۔ حالانکہ حقیقی اتحا د اس وقت قائم ہوتا ہے جب کہ لوگ اختلافیوں کے ساتھ متحد ہونے کو جان لیں۔
طرابلس میں میرا قیام فندق باب البحر (کمرہ ۸۳۷)میں تھا۔ ۲۳ ستمبر کی صبح کو ناشتہ کی میز پر ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ کسی قدر مختلف لہجہ میں انگریزی بول رہے تھے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ پہلے عیسائی" منسٹر "تھے۔ ۱۹۸۳ میں مسلمان ہو گئے۔ اپنی عمر انھوں نے ۶۶ سال بتائی۔ ان کاقدیم نام فسی ہوئی منو (Fisii Hoi Manu) تھا۔ موجودہ نام "فیاض " ہے:
Haji Faiyaz Manu, P.O. Box 1156.
Nukualofa, Tonga Island, South Pacific Ocean
میں نے پوچھا کہ آپ نے کیسے اسلام قبول کیا۔ انھوں نے کہا کہ میری ملاقات فیجی کے ایک مسلمان (محمد عثمان خاں) سے ہوئی۔ میں نے ان پر عیسائیت کی تبلیغ کرنی چاہی۔ اس طرح میرے اور ان کے در میان گفتگو شروع ہوئی۔ یہ بحث کئی دن تک جاری رہی۔ میرا کہنا تھا کہ یسوع مسیح خدا (God) تھے۔ انھوں نے کہا کہ انجیل کے مطابق، حضرت مسیح نے آخر وقت میں ایلی ایلی (میرے خدا، میرے خدا) پکارا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی اور کو خدا سمجھتے تھے۔ میں نے کہا کہ یسوع مسیح دنیا کے نجات دہندہSaviour of the World))تھے۔ انھوں نے کہا کہ جو انسان، آپ کے بیان کے مطابق، خود اپنے آپ کو یہودیوں اور رومیوں سے نہ بچا سکا،وہ ساری دنیا کو کس طرح بچائے گا۔ اس طرح بحثیں ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ مجھ پر اسلام کی صداقت واضح ہو گئی اور میں نے اسلام قبول کر لیا۔
۲۴ ستمبر ۱۹۹۰کی صبح کو اس عالمی کانفرنس کا افتتاح ہوا اور ۲۸ ستمبر تک جاری رہا۔ اس کا شعار تھا____" الدعوة الاسلامية وآفاق المستقبل" اس کا نفرنس میں مختلف ملکوں کے ۴۵۰سے زیادہ افراد شریک ہوئے۔ یہ سب ۳۰۰ تنظیموں کے نمائندہ تھے۔ صدر جلسہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ دنیا جو اس وقت مختلف بحرانوں سے گزر رہی ہے، وہ دراصل دینِ اسلام کی محتاج ہے جو کہ فی الواقع سچا دین ہے (ان العالم الذي يمر بأزمات الآن هو في حاجة إلى الإسلام لأن الإسلام ھو الدین الحقیقی) تاہم بہت کم لوگوں نے اصل موضوع پر اظہار خیال کیا۔ زیادہ تر لوگوں کی تقریروں کا رخ استعماری سازشوں اور صلیبی اور صہیونی حملوں کی طرف رہا۔
کا نفرنس کی کارروائیاں ذات العماد کے ہال میں ہوئیں جو انتہائی جدید طرز پر بنا یا گیا ہے مگر تقریریں زیادہ تر تقلیدی انداز کی تھیں۔ ایک مقرر اپنی پر جوش تقریر کر کے اسٹیج سے اترے تو میں نے کہا کہ آپ لوگ "جدید طرز کے ہال میں قدیم طرز کی تقریر کر رہے ہیں"۔ تقریروں اورمقالوں کی زبان عربی اور انگریزی تھی۔
موتمر میں بیش تر لوگوں نے جوش کے انداز میں تقریر کی۔ تاہم بعض لوگ نہایت سنجیدہ نظر آئے۔ مثلاً یوگوسلاویہ کے دکتور احمد سلاوچ نے اپنی عربی تقریر میں کہا کہ موجودہ زمانے میں کام کابہترین طریقہ پر امن طریقہ ہے۔ ہم کو علمی اسلوب میں اپنا کام کرنا چاہیے۔ ہم کو ٹکراؤ سے ہمیشہ پر ہیز کر نا چاہیے۔ حتی
کہ اگر فریق ثانی ٹکراؤ شروع کرے تب بھی ہم کوٹکراؤ سے بچ کر اپنا کام علمی اور دعوتی اسلوب میں جاری رکھنا چاہیے۔ ان کی تقریر مجھے پسند آئی۔ مگر خواہش کے باوجود الگ سے میں ان سے ملاقات نہ کر سکا۔
ایک صاحب کناڈا سے آئے تھے۔ انھوں نے اپنی انگریزی تقریر میں ایک بات کہی جو مجھےبہت پسند آئی۔ انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے آپ کو دوسروں کی نظر میں اپنی اعتباریت قائم کرنا چاہیے۔ اس کے بعد ایسا ہو گا کہ آپ کی طرف سے جو بات آئے گی، وه آسانی کے ساتھ قبول کر لی جائے گی :
First of all you have to establish your own credibility.
Then what comes from you will be easily accepted.
ایک عربی مقالہ کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے جو کچھ کہا، اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ اس مقالہ کا موضوع تھا : دنیا کی حالیہ تبدیلیاں اور عالم اسلام پر اس کا اثر (التغيرات في العالم وتأثيرها على العالم الإسلامي)
میں نے کہا کہ آج مسلمانوں کا ذہن غیر اہم باتوں میں الجھا ہوا ہے، اور جو اصل بات ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ میں نے کہا کہ جدید دنیا کے مطالعے کے بعد میں نے یہ سمجھا ہے کہ آج پوری دنیا دو قسم کے تضادات میں مبتلا ہے۔ ایک علمی تضاد اور دوسرا دینی تضاد۔ اس تضاد سے آج انسان کو نکالنا، یہی موجودہ زمانے میں دعوتی عمل کا اصل میدان ہے۔
میں نے کہا کہ جدید دنیا کا علمی تضاد وہ ہے جو مشہور سائنسدان شروڈنگر (Schrodinger) کے اس قول میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس نے بہت سے سائنس دانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ فطرت کے بارے میں سب سے زیادہ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ وہ قابل فہم ہے :
The most incomprehensible thing about nature is that it is comprehensible.
جدید علماء ایک نا قابل حل مشکل میں مبتلا ہیں۔ وہ کائنات کو خد اکے بغیر سمجھنا چاہتے ہیں۔ مگر خدا کائنات میں اتنا زیادہ شامل ہے کہ خد ا کو الگ کر کے کائنات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی۔ اس تضاد کا واحد حل یہ ہے کہ آج کے اہل علم کو خدا کے عقیدہ پر لایا جائے۔ خدا کے عقیدہ کو مانتے ہی وہ اپنے اس لا ینحل تضاد سے نجات حاصل کر لیں گے۔
دوسرا تضاد وہ ہے جس کو مذہبی تضاد کہا جاسکتا ہے۔ انڈیا کے ایک ہندو مفکر نے کہا ہے کہ ہندوؤں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مذہب اتنازیادہ غیر عقلی ہےکہ وہ ان کے لیے کھڑے ہونے کی مثبت بنیاد نہیں بن سکتا۔ وہ صرف مسلم دشمنی کی منفی بنیاد پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ مگر منفی بنیاد کبھی کسی قوم کو ترقی کی طرف نہیں لے جاسکتی۔ یہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جو چیز پسندیدہ ہے وہ ممکن نہیں، اور جو ممکن ہے وہ پسندیدہ نہیں :
What is desirable is not possible and
what is possible is not desirable.
یہ صرف ہندو ازم کی بات نہیں۔ یہی اسلام کے سوا تمام مذاہب کی بات ہے۔ یہ تمام مذاہب محرف مذاہب ہیں۔ وہ تحریف کے نتیجے میں غیر عقلی بن چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں موجودہ قو میں اس صورتحال سے دوچار ہیں کہ ان کا قومی مذہب قابل عمل نہیں ہے۔ اور اسلام قابل عمل ہےمگر قومی تعصب کی بناپر وہ اس کو اختیار نہیں کرتے۔
یہ دو قسم کے تضاد ہیں جن میں آج کی تمام قو میں مبتلا ہیں۔ دنیا کو اس تضاد سے نکالنا، یہی آج دعوتی اعتبار سے کرنے کا سب سے بڑا کام ہے۔
۲۵ ستمبر کی شام کا وقت ہے۔ میں اپنے کمرہ کی پشت کی بالکنی پر کھڑا ہوں۔ سامنے حدِنظر تک سمندر(میڈ یٹرینین) پھیلا ہوا ہے۔ سمندر میں کچھ تفریحی کشتیاں نظر آئیں جو اپنے مسافروں کے ساتھ سمندر میں تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ رہی تھیں۔ فضا میں کچھ سمندری چڑیاں منڈلا رہی تھیں جو بار بار مچھلی پکڑنے کے لیے پانی میں گرتی تھیں۔ ساحل سے ملی ہوئی سٹرک پر دوڑتی ہوئی کاروں کا منظر تھا جو اپنے مسافروں کو لیے ہوئے مسلسل چلی جا ر ہی تھیں۔
ان چیزوں کو دیکھ کر میری سمجھ میں آیا کہ ولقد کرمنا بني آدم وحملناهم في البر والبحر کا مطلب کیا ہے اور اس میں انسان کے لیے جس "تکریم" کا ذکر ہے، اس سے کیا مراد ہے وہ یہ کہ انسان کے ساتھ "حملنا" کا معاملہ کیا گیاہے،جب کہ حیوانات کے ساتھ "حملنا" کا معاملہ نہیں کیا گیا۔
پاؤں والے جانور اپنے پیروں پر چلتے ہیں۔ مچھلیاں اپنی طاقت سے تیرتی ہیں۔ چڑیاں اپنے بازوؤں کے ذریعے اڑتی ہیں، مگر انسان سوار ی پر بیٹھ کر اپنا راستہ طے کرتا ہے۔ خشکی میں اس کے لیے گاڑی ہے۔ سمندروں میں اس کے لیے کشتی ہے اور فضاؤں میں اس کے لیے ہوائی جہاز ہے۔گویاانسان کے لیے اللہ تعالیٰ نے شاہانہ معاملہ فرمایا ہے۔ جو لوگ اس عطیۂ الہٰی کا حقیقی احساس کر کے اس چیز کا ثبوت دے سکیں جس کو حمد اور شکر کہا گیا ہے، ایسے لوگوں کے ساتھ آخرت میں بھی شاہانہ معاملہ کیا جائے گا، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے :واذا رأيت ثم رأيت نعيماً وملكاً كبيرًا
یہاں جو لوگ جمع تھے، ان کی بہت بڑی تعداد چوں کہ مجھ کو جانتی تھی، اس لیے اکثر ان سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ تاہم جس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو ہوئی وہ یہ تھا کہ اسلام کے احیاء کے لیے موجودہ زمانے میں ہمیں کیا کام کرنا ہے۔
جن لوگوں کو عالم اسلام کے تعلیم یافتہ لوگوں کا تجربہ ہے، وہ جانتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کی بیشتر تعداد " تغییر نظام" کی اصطلاح میں سوچتی ہے۔ جمال الدین افغانی،سید قطب، آیات اللہ خمینی، اقبال اور ابو الاعلیٰ مودودی وغیرہ کا طرزفکرزیادہ تر لوگوں کے ذہنوں پر چھایا ہوا ہے۔ چناں چہ یہ لوگ اسلامی کام کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومتی نظام کو توڑ کر اقتدار پر قبضہ کیا جائے۔ اس کے بغیر اسلام کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے ہر مجلس میں اس نقطہ ٔنظر کی مکمل تردید کی۔ میں نے کہا کہ "تغییر نظام" کا نظریہ کوئی نظریہ نہیں، یہ صرف رد فعل ہے۔
ایک عرب انجنیر نے بتایا کہ ہمارے ملک میں ۱۹۸۸ میں پٹرولیم انجنیرنگ پر ایک سمینار ہوا۔ اس میں یورپی ملکوں کے لوگ بھی بلائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر بر نر کیمبل Burner Campbel)) تھے جو ایل پی جی Liquified petrolium gas)) کے ماہر تھے۔ ان کو میں نے آپ کی کتاب " گا ڈار ائزز" پڑھنے کے لیے دی۔ اس کو پڑھنے کے بعد انھوں نے گہرا اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ جانا کہ اگر زمین پر کوئی مذہب واقعتامنطقی مذہب(Logical religion) ہے تو وہ اسلام ہی ہو سکتا ہے۔ اور اگر کبھی مستقبل میں میں نے اپنا مذہب بدلنے کا فیصلہ کیا تو میں اسلام کا انتخاب کروں گا۔ انھوں نے گا ڈار ائزز کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا :
Even English speaking scientists in the west can not write such a book on this subject.
اسلامی مرکز کی انگریزی مطبوعات کے سلسلے میں اور بھی کئی لوگوں نے اعلیٰ تاثر کا اظہار کیا۔
کا نفرنس میں ایک صاحب لندن سے آئے تھے۔ انھوں نے ایک مجلس میں خلیج کے مسئلے کا ذکر کیا۔ وہ پر جوش طور پر صدام حسین کی وکالت کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں بیشتر مسلمان صدام حسین کے حامی ہیں۔ جو لوگ مخالف ہیں وہ وہی لوگ ہیں جن کو سعودی عرب سے پیسہ ملتا ہے۔ میں نے کہا کہ تنقید کا یہ طریقہ صحیح نہیں۔ جو حضرات صدام حسین کے حامی ہیں ان کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ ان کو عراق سے پیسہ ملتاہے تو آپ اس کا کیا جواب دیں گے۔
میں نے کہا کہ صدام حسین کو اگر حملہ کر نا تھا تو انھوں نے اسرائیل پر حملہ کیوں نہیں کیا۔ کویت پر کیوں حملہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں لندن میں عراق کے سفیر سے ملا تھا۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے کویت پر کیوں حملہ کیا۔ سفیر نے کہا کہ اصل میں تو ہم اسرائیل پر حملہ کرنا چاہتے تھے، ہم نے سعودی عرب اور کویت سے کہا کہ اس معاملے میں ہمارا ساتھ دو، مگر وہ ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس لیے ہم کو ایسا کرنا پڑا۔ میں نے کہا کہ آپ کو سفیر عراق سے پوچھنا چاہیے تھا کہ جب آپ نے سعودی عرب اور کویت کی حمایت کے بغیر ایران اور کویت پر حملہ کر دیا تو اسی طرح آپ ان کی حمایت کے بغیر اسرائیل پر بھی حملہ کر سکتے تھے۔
پھر انھوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ عراقی سفیر کے بیان کے مطابق، عراق کو یہ خطرہ تھا کہ جب وہ اسرائیل پر حملہ کرے گا تو امریکہ کی فوجیں خلیج میں عراق کے خلاف آجائیں گی۔ میں نے کہا کہ آپ کو عراقی سفیر سے دوبارہ کہنا چاہیے تھا کہ امریکی فوج تو کویت پر حملہ کی صورت میں بھی مکمل طور پر خلیج میں آگئی ہے۔ پھر جس طرح کویت پر حملہ کے وقت آپ نے امریکی فوج کی پر و انہیں کی، اسی طرح آپ اسرائیل پر حملہ کے وقت بھی امریکی فوج کی آمد سے بے پروا ہو کر اسرائیل کے خلاف اپنی فوجی کارروائی کر سکتے تھے۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سوچ کتنی زیادہ سطحی ہو گئی ہے اور مسلمانوں کے لیڈر کس طرح مسلمانوں کی کم فہمی کا استغلال کر رہے ہیں۔
۲ اگست ۱۹۹۰ کو صدام حسین نے کویت پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے مزاج کا جو پہلو سامنے آیا ہے وہ نہایت عجیب ہے۔ سنجیدہ اور سمجھ دار مسلمانوں کی ایک اقلیت نے اس کو صدام حسین کی جارحیت قرار دیا اور کھل کر اس کی مذمت کی۔ مگر دنیا بھر میں عام مسلمانوں کی اکثریت نے جارحیت کے مسئلے کو نظر انداز کیا۔ وہ صرف یہ کہتی رہی کہ سعودی عرب نے کیوں امریکہ کو بلایا اور امریکہ کی فوجیں کیوں خلیج میں داخل ہو گئیں۔ چناں چہ موجود ہ مؤتمر میں آنے والے لوگوں کی بیشتر تعداد کی سوچ بھی یہی تھی۔
یہ معاملہ موجودہ مسلمانوں کی ایک کمزوری کو بتاتا ہے۔ موجودہ مسلمان ہر معاملے میں"بغض معاویہ "کی نفسیات کے تحت سوچتے ہیں۔ وہ "حب علی " کی نفسیات کے تحت سو چنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے زعماء، ان کے اخبارات، ان کے جلسے، صبح و شام صرف ایک بات کا اعلان کرنے میں مصروف ہیں۔ اور وہ "اعداء اسلام "کا مسئلہ ہے۔ ہر لکھنے اور بولنے والا صرف یہ خبر دے رہا ہے کہ اسلام دشمنوں نے ہمارے اوپر حملہ کر رکھا ہے اور ہمیں ان کے خلاف اٹھنا چاہیے۔
اس قسم کی باتوں نے مسلمانوں کے اندر مستقل طور پر" بغض معاویہ" کی نفسیات پیدا کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاملے میں ان کا طرزِفکرمنفی طرز فکرہوتا ہے۔ اسی طرزفکر کا ایک مظاہرہ خلیج کے بحران کے سلسلے میں ہوا ہے۔ مسلمان اگر معتدل نفسیات میں جی رہے ہوتے تو وہ اس معاملے میں صدام حسین کی جارحیت کو سب سے زیادہ قابل مذمت چیز سمجھتے۔ مگر ان کی غیر معتدل نفسیات کا یہ نتیجہ ظاہر ہوا ہے کہ ان کی ساری توجہ صرف " دشمن اسلام" امریکہ کی کارروائی کی طرف چلی گئی، وہ صدام حسین کی خلاف حق کارروائی کو دیکھنے سے قاصر رہی۔
ایک تعلیم یافتہ عرب سے اس حدیث پر گفتگو ہوئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لا الہ الا اللہ کے قول سے اپنے ایمان کی تجدید کرو (جدد وا ایمانکم بقول لا الہ الا الله) میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تجدید کرو، یہ نہیں فرمایا ہے کہ تکرار کرو۔ یہاں جددوا کا لفظ تکرار کے معنی میں نہیں ہے بلکہ تفکیر کے معنی میں ہے۔ لا الہ الا اللہ ایک حقیقت ہے، بلکہ وہ سب سے بڑی حقیقت ہے، اس کی کوئی حد نہیں۔ جب بھی آپ اس پر غور کریں تو آپ اس میں نئی بات پائیں گے۔ پس حدیث کامطلب یہ ہے کہ توحید کی حقیقت میں غور کرو، اس طرح تمہارا ایمان بڑھتا ر ہے گا:
إن الرسول صلى الله عليه وسلم قال جدد واولم يقل كرروا، فكلمة جددوا ههنا ليس بمعنى التكر اربل بمعنى التفكير " لا إله إلا الله" هي حقيقة بل أكبر من كل الحقائق. فلا نهاية لها. وكلما فكرت فيها ادركت منها شيئاً جديدا فمعنى الحديث عليكم أن تتفكروا أو تتفكروا في حقيقة التوحيد فتزداد معرفتكم.
ایک صاحب نے کہا کہ آپ اکثر اپنی تحریروں میں سائنٹفک نظریات سے اسلام کی صداقت ثابت کرتے ہیں۔ اگر بعد کو یہ سائنسی نظریات غلط ثابت ہو جائیں تو ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات غلط ہیں۔ میں نے کہا کہ جو شخص اس قسم کی بات کرے اس سے آپ کو کہنا چاہیے کہ تمہارا اعتراض غلط ہے۔ تم اسلام کی اصل تعلیم کو دیکھو نہ کہ ایک شخص کی تفسیر کو۔ کیوں کہ جو چیز غلط ثابت ہوئی ہے وہ ایک شخص کی تفسیر ہے کہ خود اسلام کا متن۔
دوسری بات یہ کہ یہ ایک ناقابل عمل چیز ہے۔ مثلا قرآن میں ہے کہ أعدوا لهم ما استطعتم من قوة اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ألاإن القوة الرمي ألا إن القوة الرمی (قوت سے مراد تیر مارنا ہے، قوت سے مراد تیر مارنا ہے) یہ واضح طور پر آیت کی زمانی تفسیر ہے نہ کہ ابدی تفسیر. اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں یہ تفسیر نہ کرتے اور یہ سمجھ کر چھوڑ دیتے کہ آیندہ یہ تفسیر لوگوں کو غلط نظر آئے گی تو یہ حکمت کے خلاف ہوتا کیوں کہ تفسیر نہ کرنے کی صورت میں آیت کا وہ زمانی فائدہ حاصل نہ ہوتا جس کو حاصل کرنا ضروری تھا۔
ایک صاحب علم النفس کے ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے کہا کہ انسان کے اخلاقی اوصاف میں کسی خارجی عنصر کا کوئی دخل نہیں ہے۔ وہ صرف کیمیائی عمل (chemical reactions) کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً نفرت اور محبت، معافی اور انتقام، دینا اور چھیننا، سب جسم کے اندر کیمیائی تبد یلیوں کے سبب سے ظہور میں آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر اس کو مان لیا جائے تو منطقی طور پر اس کا کوئی جواز نہیں رہتا کہ کسی مجرم کو سزا کیوں دی جائے۔ سزا کا تصور لازمی طور پر "ارادہ" کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر کسی کے جرم میں اس کا اختیار اور ارادہ شامل نہ ہو تو اس کو اس کے کسی جرم پر سزا دینا کس طرح جائز ہوگا۔
ایک صاحب مغرب کے تعلیم یافتہ تھے۔ ان سے ڈارون کے نظریۂ ارتقاء پر گفتگو ہوئی میں نے کہا کہ میں ڈارونزم کو نہیں مانتا۔ وہ حیرت کے ساتھ میرا چہرہ دیکھنے لگے، انھوں نے کہا کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقاء تو ایک ثابت شدہ نظریہ ہے، پھر کس طرح آپ اس کا انکار کر سکتے ہیں۔
میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ثابت شدہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس نظریہ کے علما ءنے بندر سے لے کر انسان تک کے تمام ڈھانچے (اسکل) جمع کیے ہیں۔ ان کو سلسلہ وار رکھ کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک تدریجی تبدیلی (Gradual change) ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ جس چیز کو آپ "تبدیلی" کہتے ہیں، اس کو اگر میں" فرق " کہوں تو آپ کے پاس اس کی تردید کی کیا دلیل ہوگی۔
یہ صحیح ہے کہ حیوانات کے درمیان بناوٹ کی مشابہت ہے۔ اسی طرح انسان اور حیوان کے ڈھانچہ میں بھی مشابہت ہے۔ مگر جب تک تجرباتی طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ایک نوع سے دوسری نوع نکلی ہے، اس وقت تک ڈھانچہ کی اس مشابہت کو تبدیلی کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔موجودہ حالت میں یہ مشابہت صرف فرق کو بتا رہی ہے۔ یعنی ہر ڈھانچہ اپنی ایک مستقل نوع کو بتا رہا ہے، نہ یہ کہ ایک سے دوسرا نکلا، دوسرے سے تیسرا، اور تیسرے سے چو تھا۔ اور اس طرح ہوتے ہوتے انسان بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظریۂ ارتقا ءکی بنیا د صرف خود ساختہ تو جیہات پر ہے نہ کہ حقیقۃً مشاہدہ اور تجربہ پر۔
عربوں کی ایک مجلس میں موجودہ زمانے کی مسلم تحریکوں کا ذکر آیا۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کی تحریکیں آند ھی کی طرح اٹھیں مگر نتیجے کے اعتبار سے بے حقیقت ہو کر رہ گئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تحریکیں لینے کے نام پر اٹھیں، جب کہ اس دنیا میں کامیابی اس کے لیے ہے جو دینے کے لیے اٹھے۔
سب سے پہلی تحریکیں وہ ہیں جو استعمار کے خلاف اٹھیں۔ وہ مغربی قوموں سے ان کی غالبیت چھیننا چاہتی تھیں۔ اسلام پسند تحریکوں نے مسلم حکمرانوں سے ان کا اقتدار چھیننے کا نشانہ دیا۔ فلپائن، برما، اریٹریا جیسے ملکوں کے مسلم لیڈر اپنے ملک کے غیر مسلم لیڈروں سے حق حکومت چھیننا چاہتے ہیں۔ ہندستان جیسے ملکوں کے مسلمان وہاں کے اکثریتی طبقے سے یہ حق چھیننا چاہتے ہیں کہ وہ سڑکوں پر اپنا جلوس نکالیں یا اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی کی تشکیل کریں۔
اس طرح موجودہ زمانے کی تمام تحریکیں "چھیننے" کا نشانہ لے کر اٹھیں۔ مگر صحیح اسلامی تحریک وہ ہے جو دینے کے لیے اٹھے۔ جس کا مقصد دوسروں کو وہ چیز دینا ہے جو ان کے لیے مفید ہے۔ دعوت