ربانی انسان
اسلامی تحریک کا مقصد حکومتوں کو توڑنایا کسی قسم کا "نظام"قائم کرنا نہیں ہے۔ اسلامی تحریک کا مقصد انسان بنانا ہے۔ اسلامی تحریک کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایک انسان کو ربانی انسان بنا دے جب اس قسم کے انسان کسی سماج میں بڑی تعداد میں تیار ہو جائیں، تو ان کے مجموعی ارادے سے جو چیزظہور میں آتی ہے اسی کا نام اسلامی نظام ہے۔
اسلام کا نشانہ فرد ہے۔ اسلام ایسے انسان پیدا کرنا چاہتا ہے جو خدا کو ایک زندہ اور حاضرو ناظر ہستی کی حیثیت سے پالیں۔ وہ دنیا میں خدا کی کاریگری کو دیکھ کر حیران رہ جائیں۔ وہ اس کے اتھاہ انصاف کو سوچ کر اس کے شکر کے جذبے سے نہا اٹھیں۔ وہ اس کی قوت و عظمت کو محسوس کر کے دہل جائیں۔ وہ اس کی پکڑ کے احساس سے ڈھ پڑیں۔
خدا کی موجودگی کا احساس ان کے اوپر اتنا زیادہ طاری ہو کہ ان کو اس سے حیا آنے لگے۔ کوئی برا کام کرتے ہوئے ان کو ایسا لگے جیسے خدا کی نگاہیں اس کو برچھی کی طرح چھید رہی ہیں۔ کسی کے اوپر ظلم کرتے ہوئے انھیں دکھائی دے کہ خدا کے فرشتے خدا کی جہنم کو لیے ہوئے کھڑے ہیں اور اس کی تمام ہولناکیوں کے ساتھ اس کو ان کے اوپر انڈیل دینا چاہتے ہیں۔
ایمان کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ خوف اور امید کے درمیان ہوتا ہے۔ مومن ایک طرف خدا کے خوف سے کا نپتا ہے۔ اسی کےساتھ وہ اس کی رحمت کا امیدوار بھی رہتا ہے۔ حتی کہ اہل ایمان کے دل میں خدا کی جنت کا شوق اتنا بڑھتا ہے کہ وہ خدا کی جنت کے تصور سے رقص کرنے لگتے ہیں۔ اپنی کوتاہیوں کا احساس اگر ان کے اندر خشیت کی تھر تھری پیدا کرتا ہے تو اسی کے ساتھ اللہ کی رحمت اور صمدیت کا احساس ان کو جنت کے لہلہاتے ہوئے باغوں کا مشاہدہ اسی دنیا میں کرا دیتا ہے۔
حکومتوں سے ٹکرانا اور سیاسی انقلاب کے نعرے لگانا کوئی کام نہیں۔ اصل کام یہ ہے کہ ایسےانسان پیدا کیے جائیں جو خدا کی زمین پر خدا کے خوف اور خدا کی محبت سے سرشار ہو کر چلنے لگیں۔ ایسےانسان ہی دنیا میں انسانیت کی بہار لاتے ہیں اور جہاں ایسے انسان نہ ہوں، وہاں خزاں کے سوا کوئی اورچیز وجود میں آنے والی نہیں۔