سامان آزمائش
امتحان ہال میں ہزاروں قسم کے پر چے رکھ دیے جائیں اور طالب علموں سے کہا جائے کہ جو طالب علم خود سے جتنا پر چہ اٹھائے گا اتنا ہی امتحان اس کو دینا ہو گا۔ اگر ایسا کیا جائے تو کوئی بھی طالب علم بہت سے پر چوں کو نہیں اٹھائے گا۔ ہر طالب علم یہ چاہے گا کہ وہ کم سے کم پرچے کو اٹھائے بلکہ اگر ممکن ہو تو ایک ہی پر چہ اپنے ہاتھ میں لے تاکہ اس کا امتحان آسان رہے۔
مگر ایک اور شدید تر امتحان میں تمام طالب علموں کا طریقہ اس سے مختلف ہے۔ یہاں امتحان ہال میں داخل ہونے والا ہر طالب علم یہ چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پرچے اٹھا لے۔ حتی کہ اگر ممکن ہو توسارے ہی پر چوں پر تنہا قابض ہو جائے۔
یہ دوسرا امتحان ہال،موجودہ دنیا ہے۔ دنیا کے بارے میں اللہ نے اور اس کے رسولوں نے باربار یہ اعلان کیا ہے کہ یہ دنیا انسانوں کے لیے امتحان گاہ ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے یا جو کچھ کوئی شخص حاصل کرتا ہے وہ سب اس کے لیے برائے امتحان ہے۔ کامیاب وہ ہے جو اس امتحان میں پورا اترےاور نا کام وہ ہے جو اس امتحان میں ناکام ہو جائے۔
یہ احساس اگر فی الواقع لوگوں کے اندر زندہ ہو تو وہ دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنے میں انتہائی حد تک محتاط ر ہیں گے۔ وہ چاہیں گے کہ ان کا اثاثہ سب سے کم ہوتا کہ انہیں امتحان کے وقت کم سے کم حساب دینا پڑے۔
اگر آدمی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لے تو اس کا حال یہ ہو جائے گا کہ اس کو اگر تقسیم معاش میں زیادہ ملے گا تب بھی وہ اس کا کم سے کم حصہ اپنی ذات پر خرچ کرے گا۔ اور اس کا زیادہ حصہ اللہ کی راہ میں دے دے گا۔ وہ اپنی حاصل شدہ کمائی کو بھی اپنی ذات یا اپنی نمود و نمائش میں خرچ کرتے ہوئے ڈرے گا۔ وہ بقدر ضرورت اپنے پاس رکھ کر بقیہ کو خیر کی مدوں میں استعمال کرے گا تا کہ قیامت کے دن اس کا بوجھ ہلکار ہے۔ دنیا کے امتحان ہال میں آدمی کم سے کم پر چہ لینا چاہتا ہے اور آخرت کے امتحان ہال میں زیادہ سے زیادہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی ایک پرچے کو ذمہ داری سمجھتا ہے اورد وسرے کے بارے میں اس کو احساس نہیں کہ وہ ذمہ داری ہے نہ کہ کوئی حق۔