بصیرت کی اہمیت
آپ صحیح البخاری کھولیں تو اس کی پہلی حدیث وہ ملے گی جس کو عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر بیان کیا تھا۔ اس کا پہلا فقرہ ہے : انما الاعمال بالنيات (بے شک عمل کا دارو مدارنیت پر ہے)
پھر اسی صحیح البخاری میں، مثال کے طور پر،کتاب الوضوء، باب البول قائماً وقاعداً کے تحت ایک روایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گروہ کے کوڑا خانہ پر گئے۔ پھر آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا (اتی النبی صلى الله علیه وسلم سُبَاطة قَوْمٍ فَبَال قائماً)
اب ایک شخص ہے جو پہلی حدیث کو لے کر اس پر تقریر کر تا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ خالص اللہ کے لیے عمل کرو، اگر تم اللہ کی رضا کے سوا کسی اور چیز کو مقصود بناؤ گے تو تمہارا سارا عمل اکارت ہو جائے گا۔ آخرت میں اسی عمل کی قیمت ہے جو خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے کیا گیا ہو۔
دوسرا شخص وہ ہے جو صرف دوسری حدیث کو لے لیتا ہے۔ وہ لوگوں کے اندر اس بات کی مہم چلاتا ہے کہ لوگ کھڑے ہو کر پیشاب کریں۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔
بظاہر یہ دونوں آدمی حدیث پر عمل کر رہے ہیں۔ مگر اس ظاہری مشابہت کے باوجود پہلا آدمی صحیح ہے اور دوسرا آدمی غلط۔ کیوں کہ پہلا آدمی ایک ایسی تعلیم کی اشاعت کر رہا ہے جو عمومی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تعلیم کی جتنی بھی اشاعت کی جائے اس سے دین میں کوئی نقص واقع نہ ہوگا۔ مگر دوسر ے آدمی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ ایک اتفاقی واقعے کو کلی اور عمومی حیثیت دے رہا ہے۔ ایسا شخص فتنے کا داعی ہے نہ کہ دین کا داعی۔
اس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ دین کا کام کرنے کے لیے صرف دینی معلومات کافی نہیں، اسی کے ساتھ دینی بصیرت بھی انتہائی طور پر ضروری ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ایک من علم کے لیے دس من عقل کی ضرورت ہوتی ہے(یک من علم را دہ من عقل می باید)
دینی علم کو دینی بصیرت بنانے کا راز تقوی ہے۔ جو آدمی تقوی اور خشیت والا ہو گا اس کا علم اپنے آپ بصیرت کی صورت میں ڈھل جائے گا۔