اجنبی دین

امام مسلم بن الحجاج نے اپنی "صحیح" میں کتاب الایمان کے تحت ایک باب ان الفاظ میں قائم کیا ہے : باب بیان أن الإسلام بدأ غريبا وسيعود غريبا وأنه يأرز بين المسجدين۔اس باب کے ذیل میں انھوں نے تین روایتیں نقل کی ہیں۔ ایک روایت یہ ہے :

عن ابی ھریرۃقال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بَدَأَ الْإِسْلَامُ غَرِيبًا، وَسَيَعُودُ كَمَا بَدَأَ غَرِيبًا، فَطُوبَى لِلْغُرَبَاءِ »(صحیح مسلم: 232)

 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اسلام اجنبی کی حیثیت سےشروع ہوا اور پھر اسی اجنبی حالت کی طرف لوٹ جائے گا جیسا کہ شروع ہو ا تھا۔ پس خیر وسعادت ہے اجنبیوں کے لیے۔

 اسلام ساتویں صدی کے عرب میں بنو اسماعیل کے درمیان آیا۔ بنو اسماعیل اصلاً  ملتِ ابراہیمی سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر ان کے اور حضرت ابراہیم کے درمیان ڈھائی ہزار سال کا فاصلہ تھا۔ لمبی مدت کے نتیجے  میں ان کے اندر دینی بگاڑ آچکا تھا، وہ دین ابراہیم کے نام سے صرف دین آباء کو جانتے تھے۔ اس بنا پر ابتداءً ان کے لیے پیغمبر اسلام کے پیغام کو سمجھنا مشکل بنا رہا۔

 حدیث کے مطابق، خود ملت مسلمہ کی یہی حالت اس وقت ہو جائے گی جب کہ وہ زوال کا شکار ہو جائے۔ جب کہ وہ اسلام کی اسپرٹ کو کھو دے اور ایک خود ساختہ اسلام اس کے درمیان باقی رہے۔

 امت پر جب یہ وقت آتا ہے تو وہ دین کے نام سے صرف دینِ اکابر کو جانتی ہے اور دینِ خدا اس کے لیے اجنبی چیز ہو جاتا ہے۔ قومی خواہشوں سے مطابقت کرنے والا دین اس کو دین نظر آتا ہے اور اصولوں پر مبنی دین اس کے لیے ناقابل فہم چیز بن جاتا ہے۔ ظواہر دین کی دھوم مچانے کو ایسے لوگ کام سمجھتے ہیں اور حقیقتِ دین کی بات انھیں اپنے لیے نامانوس دکھائی دیتی ہے۔ ایسے ماحول میں جو لوگ قرنِ اول والا دین اختیار کریں وہ دوبارہ لوگوں کو اجنبی دکھائی دینے لگتے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom