آگ سے بچاؤ
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہونچے تو وہاں آپ نے سب سے پہلے ایک مسجد بنائی جو مسجد نبوی کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں آپ نے جو پہلا جمعہ پڑھا، اس میں آپ نے خطبہ دیتے ہوئےفرمایا :
اے لوگو، اپنے لیے کچھ آگے بھیجو۔ جان لو کہ خدا کی قسم تم میں سے ہر شخص موت کا نشانہ بنے گا پھر وہ اپنی بکریوں کو اس حال میں چھوڑ کر چلاجائے گا کہ ان کا کوئی چرواہا نہ ہو گا۔ پھر اس کا رب اس سے کلام کرے گا اور وہاں کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ اور نہ درمیان میں کوئی پردہ ہو گا۔ وہ فرمائے گا کہ کیا تمہارے پاس میرا فرستادہ نہیں آیا جس نے تم کو میرا پیغام پہونچایا۔ اور میں نے تم کو مال دیا اور تمہارے اوپر اپنا فضل کیا۔ پھرتم نے اپنے آگے کے لیے کیا بھیجا۔ بندہ اپنے دائیں اور بائیں دیکھے گا۔ مگر وہ کچھ نہ پائے گا۔ پھر وہ اپنے سامنے دیکھے گا۔ تو وہاں جہنم کے سوا اور کچھ نہ دیکھے گا۔پس جو شخص اپنا چہرہ آگ سے بچا سکے وہ بچائے، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے کیوں نہ ہو (البدایۃ والنهایۃ۲۱۴/۳)
آدمی کے اندر موت اور قیامت کے مسئلے کا شدید احساس پیدا ہو جائے تو وہ چاہنے لگتا ہے کہ جو بھی قیمت وہ دے سکتا ہے، اس کو دے کر وہ اپنے آپ کو آخرت کے عذاب سے بچائے۔
رات کے وقت وہ بستر پر لیٹا ہوا ہے۔ آخرت کے مسئلے کو سوچ کر وہ تڑپ اٹھتا ہے۔ وہ اٹھ کر وضو کرتا ہے اور نماز کے لیے کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ خدایا، میری اس نماز کو میری طرف سے قبول کرلے اور مجھے آگ کے عذاب سے بچالے۔ وہ ایک شخص کو مصیبت میں دیکھتا ہے، وہ اپنی محنت کی کمائی کا ایک حصہ اس کو دیتا ہے اور اس کا دل کہہ رہا ہو تا ہے کہ خدایا، آج میں نے جس طرح اس کی مدد کی ہے، تو آنے والے سخت تر دن میں میری مدد فرما۔ ایک حق اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ وہ اپنی پوزیشن کا خیال کیے بغیر اس کا اعتراف کر لیتا ہے اور آنسوؤں کی زبان سے کہتا ہے کہ خدایا، مجھے اپنے ان بندوں میں لکھ لے جنہوں نے دیکھے بغیر تیرا اعتراف کیا۔
ہر عمل "کھجور کا ایک ٹکڑا "ہے، اور جس آدمی کے پاس جو ٹکڑا ہے، اس کو چاہیے کہ اسی ٹکڑے کو وہ اپنی نجات کے لیے پیش کرے۔