اصل مسئلہ
فریڈرک اعظم (۱۷۸۶ - ۱۷۱۲) روس کا بادشاہ تھا۔ اس کو ملک میں وصول ہونے والے ٹیکس کی مقدار کم نظر آئی۔ اس نے ٹیکس کی شرح بڑھا دی۔ تاکہ اس کے خزانے میں زیادہ مقدار میں رقم جمع ہو سکے مگر اس کے بعد وصول شدہ ٹیکس کی جورقم خزانے میں آئی وہ پچھلے سالوں سے کچھ زیادہ نہ تھی۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ کیا بات ہے، ٹیکس کی شرح میں اضافے کے باوجود ٹیکس کی رقم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔
دربار میں ایک پرانا فوجی جنرل تھا۔ اس نے بادشاہ کے سوال کا جواب عملی صورت میں دیا۔ اس نے برف کا ایک ٹکڑا ہاتھ میں لے کر اس کو اوپر بلند کیا۔ اور لوگوں سے کہا کہ اس کو دیکھ لیجیے کہ یہ کتنابڑا ہے۔ اس کے بعد اس نے برف کو اپنے قریب کے آدمی کو دیا اور اس سے کہا کہ اس کو دست بدست بادشاہ تک پہونچاؤ۔ اب ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو دیتے ہوئے برف کو آگے بڑھایا۔ یہاں تک وہ بادشاہ تک پہونچ گیا۔ برف جب بادشاہ تک پہونچا تو وہ پگھلتے پگھلتے مونگ پھلی کے دانہ کے برابر ہو چکا تھا۔
اس مثال سے مذکورہ جنرل نے بادشاہ کو یہ سبق دیا کہ سرکاری مالیہ میں کمی کی وجہ عمال کی بد عنوانی ہے نہ کہ ٹیکس کی شرح میں کمی۔ اگر عمال کے اندر بدعنوانی کو ختم نہ کیا جائے تو وصول شدہ رقم کا بڑا حصہ ان کی جیب میں جاتا رہے گا اور حکومت کے حصہ میں آنے والی رقم بدستور وہی کی وہی رہے گی۔
یہی صورت حال آج ہندستان کی ہے، ہمارے یہاں ہر سال ٹیکسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ مگر حکومت کو ملنے والی رقم میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ حددرجہ بڑھے ہوئے کرپشن کی وجہ سے ٹیکس کی پوری رقم حکومت کے خزانے میں نہیں پہونچتی۔ وہ افسروں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق ہندستان اس وقت دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔ ہندستان پر اس وقت جوغیر ملکی قرضہ ہے، اس کی مقدار ترسٹھ ارب ڈالر ہے۔
ہندستان کے اقتصادی مسئلے کا حل کر پشن کو گھٹانا ہے نہ کہ ٹیکس کو بڑھانا۔