جھوٹی مخالفت
قدیم مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ کے خلاف جو باتیں مشہور کرتے تھے، ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ قرآن خدا کا کلام نہیں، وہ ایک بناوٹی کلام ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انکار کرنےوالے لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک جھوٹ ہے جس کو انھوں نے گھڑ لیا ہے، اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس میں ان کی مدد کی ہے۔ پس یہ لوگ ظلم اور جھوٹ کے مرتکب ہوئے (الفرقان :۴)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کو معلوم ہے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ (محمد کو یہ کلام) ایک آدمی سکھاتا ہے۔ جس شخص کی طرف وہ منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن صاف عربی زبان میں ہے(النحل :۱۰۳)
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں کچھ افراد تھے جو یہودیوں کی زبان جانتے تھے، مثلاً ابو فکیہہ، عداس، جبر۔ وہ تورات وغیرہ پڑھتے تھے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی تبلیغی سر گر میوں کے تحت ان سے بھی ملتے تھے، اس کو مخالفین نے شوشہ بنا لیا :
إن النبیّ ﷺربّما جلس إلیھم لیعلمھم مما علمہ اللہ۔۔۔ فقال الکفار انما یتعلم محمد منہ۔ (تفسیر القرطبی ۱۷۸/۱۰(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ان لوگوں کے پاس بیٹھتے تھے تاکہ ان کو اس بات کی تعلیم دیں جس کی تعلیم اللہ نے آپ کو دی ہے۔ پس کافروں نے کہا کہ محمد انھیں لوگوں سے سیکھتے ہیں۔
مذکورہ افراد مکہ کے معمولی افراد تھے۔ ان میں سے کوئی غلام تھا اور کوئی لو ہار تھا۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین چوں کہ آپ کی شخصیت کو اور آپ کے کلام کو بالکل بے وزن سمجھتے تھے، اس لیے انھوں نے آپ کو انھیں معمولی لوگوں سے منسوب کر دیا کہ یہی افراد ہیں جو آپ کا ذریعۂ معلومات ہیں۔
مزید یہ کہ انھوں نے سکھانے کے معاملے کو سیکھنے کا معاملہ بنا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اس لیے بیٹھتے تھے کہ ان کو تعلیم دیں۔ مگربات کو بدل کر انھوں نے یہ کہہ دیا کہ آپ خود ان سے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
مخالفت کس طرح آدمی کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ جب آدمی کسی کے خلاف عناد میں مبتلا ہو جائے تو کھلی حقیقتیں بھی اس کو نظر نہیں آتیں۔ وہ سیدھی بات کو ٹیڑھے معنی پہنا دیتا ہے۔